اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ(انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ میں سواری پر پیچھے بٹھا لیا تھا) تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی پر آئے تو اترے، اور پیشاب کیا، (انہوں نے لفظ «بَالَ» کہا «أهراق الماء» نہیں کہا ۱؎) تو میں نے برتن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا، آپ نے ہلکا پھلکا وضو کیا، میں نے آپ سے عرض کیا: نماز پڑھ لیجئیے، تو آپ نے فرمایا: نماز تمہارے آگے ہے، جب آپ مزدلفہ پہنچے تو مغرب پڑھی، پھر لوگوں نے اپنی سواریوں سے کجاوے اتارے، پھر آپ نے عشاء پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 610]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 610
610 ۔ اردو حاشیہ: ➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ مغرب ا ور عشاء کی نمازوں کے درمیان اگر کچھ فاصلہ ہو جائے، مثلاً: پالان اتارنا، سامان سنبھالنا یا کچھ کھا پی لینا تو اس سے جمع میں حرج نہ ہو گا جیسا کہ حدیث میں ذکر ہے۔ ➋ اگر سواری کا جانور طاقت ور ہو تو اس پر اپنے پیچھے کسی کو بٹھا لینا جائز ہے۔ اگر جانور اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر درست نہیں کیونکہ یہ جانور پر ظلم ہو گا۔ ➌ وضو میں کسی سے استعانت لینا جائز ہے۔ ➍ مزدلفہ پہنچنے سے قبل راستے ہی میں مغرب کی نماز ادا کرنا جائز نہیں۔ ➎ اگر دونمازیں اکٹھی کرنی ہوں تو ان کے درمیان سنن رواتب پڑھنے ضرورت نہیں، صرف فرض پڑھے جائیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 610