عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ایک ساتھ آٹھ رکعت، اور سات رکعت نماز پڑھی، آپ نے ظہر کو مؤخر کیا، اور عصر میں جلدی کی، اور مغرب کو مؤخر کیا اور عشاء میں جلدی کی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 590]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/المواقیت 12 (543)، 18 (562)، التھجد 30 (1174)، صحیح مسلم/المسافرین 6 (705) سنن ابی داود/الصلاة 274 (1214)، ’’کلہم بدون قولہ: أخّر… إلخ‘‘، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 5377)، مسند احمد 1/221، 223، 273، 285، 366، ویأتی عند المؤلف برقم: 591، 604، (صحیح) (لیکن ’’أخر الظھر…إلخ‘‘ کا ٹکڑا حدیث میں سے نہیں ہے، نسائی کے کسی راوی سے وہم ہو گیا ہے، یہ مؤلف کے سوا کسی اور کے یہاں ہے بھی نہیں، مدرج ہونے کی صراحت مسلم میں موجود ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله أخر الظهر .. إلخ فإنه مدرج
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 590
590 ۔ اردو حاشیہ: ➊حدیث میں وارد یہ الفاظ: «اخر الظھر۔۔۔ وعجل العشاء» مدرج ہیں۔ یہ جابر بن زید کا اپنا کلام ہے جو انہوں نے اپنے گمان کے طور پر بیان کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما کے الفاظ نہیں ہیں جیسا کہ بخاری و مسلم کی تفصیلی روایات سے پتا چلتا ہے، نیز محقق کتاب نے بھی تخریج میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، لہٰذا انہیں بنیاد بنا کر جمع حقیقی کی نفی نہیں کی جا سکتی جیسا کہ بعض لوگ اسے جمع حقیقی کی بجائے جمع صوری قرار دیتے ہیں، یہ بات صحیح نہیں، حدیث کے الفاظ کی تائید نہیں کرتے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: 2795] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل حالتِ اقامت، یعنی مدینہ منورہ کا ہے۔ گویا آپ نے اس موقع پر بغیر کسی سبب کے دو دو نمازیں اکٹھی کر کے پڑھیں۔ استفسار پر آپ نے اس کی وضاحت یہ فرمائی: ”تاکہ میری امت کو مشقت نہ ہو۔“[صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 705] اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مقیم شخص بھی ضرورت کے پیش نظر دونمازیں اکٹھی کر کے پڑھ سکتا ہے لیکن تساہل، کاروباری مشاغل اور عادت کے طور پر ا یسا کرنا کبیرہ گناہ ہے، عام حالات میں اس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 590