علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا الا یہ کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 574]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 574
574 ۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سورج کے زردی مائل ہونے سے قبل، جبکہ وہ روشن اور چمک دار ہو، نوافل پڑھے جاسکتے ہیں۔ حدیث میں وارد یہ استثنا «إِلَّا أَنْ تَكُونَ الشَّمْسُ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً مُرْتَفِعَةً»”مگر یہ کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔“ قابل اعتبار وحجت ہے۔ اس سے حدیث: «لا صلاة بعد العصر حتی تغرب الشمس» عصر کے بعد نوافل پڑھنا جائز ہے۔ یہ عمل بعض صحابہ اور کثیر تابعین سے بھی مروی ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے: [محلی ابن حزم: 2؍272، 275، وشرح سنن النسائي للإتیوبي: 7؍364۔ 372] لہٰذا اس استثنا کو شاذ قرار دینا درست نہیں ہے اور نہ احناف کا یہ کہنا درست ہے کہ اس وقت بیضا وغیرہ تو پڑھی جا سکتی ہے جب کہ سورج کے زرد ہونے کے بعد یہ بھی نہ پڑھی جائے، نیز اس توجیہ کی کوئی پختہ دلیل بھی نہیں ہے اور یہ فرق دیگر عمومات کی روشنی میں نقابل عمل ٹھہرتا ہے۔ حدیث میں ہے: «من نسي صلاة أو نام عنھا، فکفارتھا أن یصلیھا إذا ذکرھا»[صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 684] ”جوکوئی نماز پڑھنا بھول جائے یا اس سے سویا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی یاد آئے (یا بیدار ہو) اسی وقت پڑھ لے۔“ لہٰذا سورج چمک رہا ہو یا زردی مائل ہونا شروع ہو جائے، دونوں صورتوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 574