الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الأشربة
کتاب: مشروبات (پینے والی چیزوں) کے احکام و مسائل
48. بَابُ : ذِكْرِ الأَخْبَارِ الَّتِي اعْتَلَّ بِهَا مَنْ أَبَاحَ شَرَابَ الْمُسْكِرِ
48. باب: نشہ لانے والی شراب کو مباح اور جائز قرار دینے کی احادیث کا ذکر۔
حدیث نمبر: 5694
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي جَمْرَةَ , قَالَ: كُنْتُ أُتَرْجِمُ بَيْنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَبَيْنَ النَّاسِ , فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ تَسْأَلُهُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ , فَنَهَى عَنْهُ , قُلْتُ: يَا أَبَا عَبَّاسٍ , إِنِّي أَنْتَبِذُ فِي جَرَّةٍ خَضْرَاءَ نَبِيذًا حُلْوًا , فَأَشْرَبُ مِنْهُ , فَيُقَرْقِرُ بَطْنِي , قَالَ:" لَا تَشْرَبْ مِنْهُ وَإِنْ كَانَ أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ".
ابوجمرہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عربی سے ناواقف لوگوں کے درمیان ترجمہ کر رہا تھا، اتنے میں ان کے پاس ایک عورت لاکھی برتن کی نبیذ کے بارے میں مسئلہ پوچھنے آئی تو انہوں نے اس سے منع کیا، میں نے عرض کیا: ابوعباس! میں ایک سبز لاکھی میں میٹھی نبیذ تیار کرتا اور اسے پیتا ہوں، اس سے میرے پیٹ میں ریاح بنتی ہے، انہوں نے کہا: اسے مت پیو اگرچہ شہد سے زیادہ میٹھی ہو۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5694]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 6534) (صحیح الإسناد)»

وضاحت: ۱؎: ابوعباس یعنی آپ کے سب سے بڑے لڑکے کا نام عباس تھا، انہی کے نام سے آپ کی کنیت ابوعباس تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5694 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5694  
اردو حاشہ:
(1) سوال کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذائقے میں تو کوئی تلخی نہیں ہوتی بلکہ خالص میٹھا ہوتا ہے اور یہ نشانی ہے اس میں نشہ نہ پیدا ہونے کی مگر پیٹ میں گڑ گڑ سے شک پڑتا ہے کہ اس میں نشہ ہے کیونکہ یہ تلخی اس کی دلیل ہے۔ جواب کا مفاد یہ ہے کہ ایسی مشکوک نبیذ کی بھی اجازت نہیں دے رہے وہ نشہ آور کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں۔
(2) ابو عباس یہ بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے اگرچہ وہ اس کنیت سے زیادہ مشہور نہیں ہوئے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5694