عبدالرحمٰن بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: شراب سے بچو، کیونکہ یہ برائیوں کی جڑ ہے، تم سے پہلے زمانے کے لوگوں میں ایک شخص تھا جو بہت عبادت گزار تھا، اسے ایک بدکار عورت نے پھانس لیا، اس نے اس کے پاس ایک لونڈی بھیجی اور اس سے کہلا بھیجا کہ ہم تمہیں گواہی دینے کے لیے بلا رہے ہیں، چنانچہ وہ اس کی لونڈی کے ساتھ گیا، وہ جب ایک دروازے میں داخل ہو جاتا (لونڈی) اسے بند کرنا شروع کر دیتی یہاں تک کہ وہ ایک حسین و جمیل عورت کے پاس پہنچا، اس کے پاس ایک لڑکا تھا اور شراب کا ایک برتن، وہ بولی: اللہ کی قسم! میں نے تمہیں گواہی کے لیے نہیں بلایا ہے، بلکہ اس لیے بلایا ہے کہ تم مجھ سے صحبت کرو، یا پھر ایک گلاس یہ شراب پیو، یا اس لڑکے کو قتل کر دو، وہ بولا: مجھے ایک گلاس شراب پلا دو، چنانچہ اس نے ایک گلاس پلائی، وہ بولا: اور دو، اور وہ وہاں سے نہیں ہٹا یہاں تک کہ اس عورت سے صحبت کر لی اور اس بچے کا خون بھی کر دیا، لہٰذا تم لوگ شراب سے بچو، اللہ کی قسم! ایمان اور شراب کا ہمیشہ پینا، دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے، البتہ ان میں سے ایک دوسرے کو نکال دے گا۔ [سنن نسائي/كتاب الأشربة/حدیث: 5669]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5669
اردو حاشہ: (1) پیچھے پڑگئی یعنی اس پر عاشق ہوگئی۔ یا اس کو گمراہ کرنے کے درپے ہوگئی۔ (2)”گلاس پلا دے“ یہ سوچ کر کہ یہ ان تینوں میں چھوٹا گناہ ہے اور جان بچانے کے لیے اس کا ارتکاب جائز ہوگا یا بڑے گناہ سے بچنے کے لیے چھوٹا گناہ کرنے کی گنجائش ہے۔ (3)”مجھے اور پلاؤ“ کیونکہ شراب کا ایک گھونٹ دوسرے کی طرف کھینچتا ہے حتیٰ کہ ایک دفعہ پی لینے والا اس کا عادی بن جاتا ہے۔ (4)”مار ڈالا“ نشے میں عقل پر قابو نہ رہا۔ زنا کر بیٹھا اور پھر راز فاش ہونے کے ڈر سے لڑکے کو بھی مارڈالا۔ (5)”نکال دے گا“ اگر ایمان قوی ہوا تو ایک دفعہ پی لینے والے کو دوبارہ نہیں پینے دے گا اور اگر ایمان کمزور ہوا تو شراب آہستہ آہستہ اس سے ایمان کو نکال دے گی یعنی وہ شخص ایمان کے تمام کام چھوڑ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شراب کو ام الخبائث یعنی تمام خرابیوں قباحتوں اور شرعی واخلاقی رذائل اور گناہوں کی ماں اور جڑ قراردیا گیا ہے۔ اسے ہمیشہ پینے والا نہ صرف تمام شرعی واخلاقی کمالات سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بلکہ دائرہ انسانیت سے نکل کر دائرہ حیوانیت میں جا پہنچتا ہے۔ (6) شراب نوشی کی نحوست یہ ہے کہ اس سے انسان کے قلب و ذہن سے ایمان زائل ہو جاتا ہے اور یہ خوفناک آفت ہے۔ اگر انسان کے پاس دولت نہ ہو تو اس سے بڑی شقاوت اور بد بختی اور کیا ہوسکتی ہے؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5669