ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی اٹھا، اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اسے پکڑنے کے لیے بڑھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو (پیشاب کر لینے دو) اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، کیونکہ تم آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، سختی کرنے والے بنا کر نہیں“۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 56]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 58 (220)، الأدب 80 (6128)، (تحفة الأشراف: 14111)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة 138 (380) مفصلاً، سنن الترمذی/فیہ 112 (147)، سنن ابن ماجہ/فیہ 78 (529)، مسند احمد 2/282، ویأتي عند المؤلف برقم: (331) (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 56
56۔ اردو حاشیہ: یہ روایت بظاہر ان روایات کے خلاف ہے جن میں زمین کے خشک ہونے کو اس کی پاکیزگی کہا گیا ہے مگر کہا: جا سکتا ہے کہ وہ روایات اس زمین کے بارے میں ہیں جس کی نجاست کا بروقت پتہ نہ چلے اور خشک ہو جائے اور یہ روایت اس زمین کے بارے میں ہے جس کی نجاست کا بروقت پتہ چل جائے جیسا کہ مذکورہ واقعے میں ہے۔ یا اس روایت میں وقتی طہارت کا ذکر ہے اور ان روایات میں مستقل طہارت کا۔ کسی روایت کو چھوڑ دینے سے بہتر ہے کہ اس پر مخصوص حالت میں عمل کیا جائے۔ روایات کے درمیان تطبیق دینا ان میں سے کسی کے ترک سے بہت اولیٰ ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 56
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 882
´نماز میں دعا مانگنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہوئے، ایک دیہاتی نے نماز میں کہا: «اللهم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا»”اے اللہ! تو مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس دیہاتی سے فرمایا: ”تم نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا“، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 882]
882۔ اردو حاشیہ: اس انداز سے دعا نہیں کرنی چاہیے اور یہ دعا کرنے والا ہی اعرابی تھا، جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا۔ جیسا کہ جامع الترمذی کی حدیث [147] سے معلوم ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 882
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 331
´پانی (جو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا) کی تحدید کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی کھڑا ہوا اور مسجد میں پیشاب کرنے لگا، لوگ اسے پکڑنے کے لیے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اسے چھوڑ دو (پیشاب کر لینے دو)، اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو، اس لیے کہ تم لوگ آسانی کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو سختی کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے ہو۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 331]
331۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 56 اور اس کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 331
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1217
´نماز میں بات کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، آپ کے ساتھ ہم (بھی) کھڑے ہوئے، تو ایک اعرابی نے کہا (اور وہ نماز میں مشغول تھا): «اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا»”اے اللہ! میرے اوپر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما“۱؎ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو آپ نے اعرابی سے فرمایا: ”تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کر دیا“، آپ اس سے اللہ کی رحمت مراد لے رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1217]
1217۔ اردو حاشیہ: ➊ اعرابی کا یہ کلام کسی انسان سے کلام نہیں تھا کہ اس سے نماز میں نقص پڑتا۔ یہ مسنون اور مقررہ دعاؤں میں سے نہیں ہے، اسی لیے باب کے عنوان میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کی گئی ہے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کا کلام اگرچہ نماز میں مناسب نہیں مگر چونکہ اللہ تعالیٰ ہی سے خطاب ہے، لہٰذا اس سے نماز باطل نہ ہو گی۔ ویسے نماز میں مسنون اور منقول دعاؤں سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے اپنی طرف سے بنائی ہوئی دعا درست نہ ہو۔ ➋ دعا جامع اور وسعت کی حامل ہونی چاہیے، چنانچہ ایسی دعا کرنا درست نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کے وسیع فضل و کرم کو محدود کر دیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1217
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1218
´نماز میں بات کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں داخل ہوا، اور اس نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر اس نے (نماز ہی میں) کہا: «اللہم ارحمني ومحمدا ولا ترحم معنا أحدا»”اے اللہ! مجھ پر اور محمد پر رحم فرما، اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے ایک کشادہ چیز کو تنگ کر دیا۔“[سنن نسائي/كتاب السهو/حدیث: 1218]
1218۔ اردو حاشیہ: ”تو نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا۔“ اللہ کی رحمت انسان کے وہم و گمان میں نہیں آسکتی۔ اس میں کوئی تحدید نہیں، لہٰذا مانگتے وقت شرمانا چاہیے نہ دل چھوٹا کرنا چاہیے۔ امکان و عدم امکان کی بحث ہمارے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر چیز حاضر اور موجود ہے۔ انسان دل کھول کر مانگے۔ اسباب کا وجود بھی حق تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ خود مہیا فرمائے گا، البتہ یہ ضروری ہے کہ سائل مانگنے والی شکل بنائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1218
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6010
6010. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے ایک دیہاتی نے دوران نماز میں کہا: اے اللہ! مجھ پر اور حضرت محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر۔ جب نبی ﷺ نے سلام پھیرا تو دیہاتی سے فرمایا: ”تو نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا۔“ اس سے مراد اللہ تعالٰی کی رحمت تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6010]
حدیث حاشیہ: اس دیہاتی کی دعا غیر مناسب تھی کہ اس نے رحمت الٰہی کو مخصوص کر دیا جو عام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6010
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6128
6128. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگ اس کی طرف اسے زجرو توبیخ کرنے لیے آگے بڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو۔ تم تو صرف آسانی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو۔ تم تنگی کرنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6128]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں، ایسی حالت میں وہاں کی مٹی نکالنی ضروری تھی یہ حدیث پہلے کئی بار گزر چکی ہے۔ اس سے اخلاق نبوی پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وعلی آله وصحبه وسلم ألف ألف مرة بعدد کل ذرة۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6010
6010. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ ایک نماز کے لیے کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے ایک دیہاتی نے دوران نماز میں کہا: اے اللہ! مجھ پر اور حضرت محمد ﷺ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی پر رحم نہ کر۔ جب نبی ﷺ نے سلام پھیرا تو دیہاتی سے فرمایا: ”تو نے ایک وسیع چیز کو تنگ کر دیا۔“ اس سے مراد اللہ تعالٰی کی رحمت تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6010]
حدیث حاشیہ: (1) اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے، اس کی وسعت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اعرابی نے اسے محدود کر دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کا وصف اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ دعا کرتے وقت دوسرے اہل ایمان کو بھی شامل کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ امتیازی وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے ایمان لائے تھے اور ان کے لیے ہمارے دل میں بغض نہ رہنے دے، اے ہمارے رب!یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “(الحشر59: 10)(2) شاید کہ یہ وہی اعرابی ہو جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی مسجد میں آیا اور دعا کرنے لگا: اے اللہ! مجھے بخش دے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بخش دے، ہمارے ساتھ کسی کو مغفرت عطا نہ فرما، پھر وہ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر پیشاب کرنے لگا......(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 147) بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو غلط دعا کرنے پر ٹوکا، حالانکہ اس غلطی کی وجہ اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت وعقیدت تھی۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6010
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6128
6128. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا۔ لوگ اس کی طرف اسے زجرو توبیخ کرنے لیے آگے بڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا: ”اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو۔ تم تو صرف آسانی کرنے والے بناکر بھیجے گئے ہو۔ تم تنگی کرنے والے بناکر نہیں بھیجے گئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6128]
حدیث حاشیہ: 1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ اگر تم دیہاتی کو دوران پیشاب میں ڈانٹ ڈپٹ کرو گے تو اس کے کپڑے اور بدن پیشاب سے آلودہ ہوں گے، نیز مسجد کی جگہ بھی زیادہ پلید ہو گی، پھر پیشاب رک جانے سے اسے نقصان پہنچنے کا بھی خطرہ ہے، لہذا آپ نے آسانی کرتے ہوئے اسے پیشاب کرنے دیا، جب وہ فارغ ہوا تو اسے سمجھایا اور پانی کا ڈول منگوا کر پیشاب کی جگہ پر بہا دیا۔ اس سے دینی معاملات میں آسانی ثابت ہوتی ہے۔ (2) بہرحال اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و کردار پر روشنی پڑتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6128