الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
ذكر الفطرة
ابواب: فطری (پیدائشی) سنتوں کا تذکرہ
45. بَابُ : تَرْكِ التَّوْقِيتِ فِي الْمَاءِ
45. باب: پانی کی عدم تحدید کا بیان۔
حدیث نمبر: 53
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَامَ عَلَيْهِ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" دَعُوهُ لَا تُزْرِمُوهُ، فَلَمَّا فَرَغَ دَعَا بِدَلْوٍ فَصَبَّهُ عَلَيْهِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: يَعْنِي لَا تَقْطَعُوا عَلَيْهِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس پر جھپٹے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، کرنے دو روکو نہیں ۱؎، جب وہ فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی منگوایا، اور اس پر انڈیل دیا۔ ابوعبدالرحمٰن (امام نسائی رحمہ اللہ) کہتے ہیں: یعنی بیچ میں نہ روکو پیشاب کر لینے دو۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 53]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الوضوء 57 (219)، الأدب 35 (6025)، صحیح مسلم/الطہارة 30 (284)، سنن ابن ماجہ/فیہ 78 (528)، (تحفة الأشراف: 290)، وقد أحرجہ: سنن الدارمی/الطہارة 62 (767)، مسند احمد 3/191، 226، ویأتي عند المؤلف برقم: (330) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس میں بہت سی مصلحتیں تھیں، ایک تو یہ کہ اگر اسے بھگاتے تو وہ پیشاب کرتا ہوا جاتا جس سے ساری مسجد نجس ہو جاتی، دوسری یہ کہ اگر وہ پیشاب اچانک روک لیتا تو اندیشہ تھا کہ اسے کوئی عارضہ لاحق ہو جاتا، تیسری یہ کہ وہ گھبرا جاتا اور مسلمانوں کو بدخلق سمجھ کر اسلام ہی سے پھر جاتا وغیرہ وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاريلا تزرموه ثم دعا بدلو من ماء فصب عليه
   صحيح البخاريأمر النبي بذنوب من ماء فأهريق عليه
   صحيح البخاريدعا بماء فصبه عليه
   صحيح مسلمالمساجد لا تصلح لشيء من هذا البول ولا القذر إنما هي لذكر الله والصلاة وقراءة القرآن أمر رجلا من القوم فجاء بدلو من ماء
   صحيح مسلمدعوه فلما فرغ أمر رسول الله بذنوب فصب على بوله
   صحيح مسلمدعوه ولا تزرموه قال فلما فرغ دعا بدلو من ماء فصبه عليه
   سنن النسائى الصغرىبدلو فصب عليه
   سنن النسائى الصغرىدعوه لا تزرموه فلما فرغ دعا بدلو فصبه عليه
   سنن النسائى الصغرىبدلو من ماء فصب عليه
   سنن النسائى الصغرىلا تزرموه فلما فرغ دعا بدلو من ماء فصبه عليه
   سنن ابن ماجهلا تزرموه ثم دعا بدلو من ماء فصب عليه
   بلوغ المرامجاء اعرابي فبال في طائفة المسجد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فزجره الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنهاهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قضى بوله امر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بذنوب من ماء فاهريق عليه
   مسندالحميديصبوا عليه دلوا من ماء

سنن نسائی کی حدیث نمبر 53 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 53  
53۔ اردو حاشیہ:
➊ اس باب میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جو مذکورہ احادیث (پچھلے باب کے تحت) میں بیان شدہ تحدید سے خالی یا ظاہراً اس کے خلاف محسوس ہوتی ہیں۔ ان میں سے ایک حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے جامع ترمذی، سنن ابوداود اور سنن نسائی کے بعض نسخوں میں مروی ہے، فرماتے ہیں: «قیل: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نتو ضا من بئر بضاعة وھی بئر یلقی فیھا الحیض ولحوم الکلاب والنتن؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن الماء طھور لا ینجسه شیء» اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: گیا کہ ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر لیا کریں؟ کیونکہ اس میں حیض کے چیتھڑے، کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں پھینکی جاتی ہیں تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اتنا کھلا) پانی طاہر اور مطہر رہتا ہے، ایسی کوئی چیز اسے پلید نہیں کرتی۔ [جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 66، و سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 66]
➋ بئر بضاعہ ایک محلے کا کنواں تھا جس کے اردگرد منڈیر بلند نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ چیزیں آندھی یا بارشی پانی کی وجہ سے کنویں میں گر جاتی تھیں نہ کہ انہیں قصداً ڈالا جاتا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ جیسی جماعت سے اس کا تصور بھی محال ہے اور پھر بعد میں ان چیزوں کو کنویں سے نکال بھی دیا جاتا تھا جیسا کہ رہائشی علاقوں کے کنوؤں میں ہوتا ہے بلکہ مزید پانی نکال کر گندگی کے اثرات بھی ختم کر دیے جاتے ہیں۔ ان وضاحتی قیود کو ذہن میں رکھ کر حدیث کو پڑھا جائے۔
➌ اس کنویں کا پانی ظاہر ہے کہ کثیر پانی تھا اور دو قلے سے زائد تھا، لہٰذا یہ پلید چیزیں نکالے جانے اور ان کے اثرات ختم کیے جانے کے بعد جب پانی کا رنگ، بو اور ذائقہ صحیح رہتا تھا، تو پانی پلید ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بعض حضرات نے قلتین والی روایت کے مخالف سمجھا ہے کیونکہ ایک ڈول پانی ہر حال میں قلتین سے کم ہے۔ اور پیشاب پر ڈالنے سے وہ پانی پلید نہیں ہوا بلکہ جگہ بھی پاک ہو گئی۔ لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی گندگی پر پانی ڈالنا الگ بات ہے اور پانی پر گندگی کا واقع ہونا الگ بات ہے۔ اور قلتین والی حدیث پانی میں گندگی پڑنے کی صورت ہے، لہٰذا ان میں کوئی تعارض نہیں، جیسے ہر درندہ جو حرام ہے اس کا جوٹھا پلید ہے، مگر بلی کا جوٹھا پاک ہے۔ خاص چیز کے حکم میں کوئی خصوصی مصلحت ہو سکتی ہے جو عام ضابطے کو ختم نہیں کر سکتی۔ متعلقہ مسئلے میں چونکہ پیشاب زمین میں جذب ہو چکا تھا اور ایسی زمین کو نجاست سے مکمل طور پر پاک کرنا ممکن نہ تھا، لہٰذا لوگوں کی تنگی کے پیش نظر ایک ڈول بہانا کافی سمجھا گیا جس سے زمین کی بالائی سطح پر باقی ماندہ پیشاب کے اثرات زائل ہو جائیں اور پانی کے ساتھ نیچے چلے جائیں اور سطح زمین صاف ہو جائے۔
➎ یہ حدیث نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی اعلیٰ مثال ہے کہ آپ اس کی غیرمہذب حرکت پر اشتعال میں نہیں آئے بلکہ اسے معذور سمجھ کر اپنے پاس بلایا اور پیار سے مسئلہ سمجھایا۔ اس حسن سلوک کا اس شخص نے بعد میں اعلانیہ اظہار کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 53   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 10  
´آدمی کا پیشاب ناپاک ہے`
«. . . جاء اعرابي فبال في طائفة المسجد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فزجره الناس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فنهاهم النبي صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما قضى بوله امر النبي صلى الله عليه وآله وسلم بذنوب من ماء فاهريق عليه . . .»
. . . ایک بدوی آیا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا تو لوگوں نے اسے ڈانٹا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسا کرنے سے منع فرمایا، جب بدوی پیشاب سے فارغ ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک ڈول طلب فرمایا اور اس جگہ پر بہا دیا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 10]
لغوی تشریح:
«أَعْرَابِيٌّ» اعراب کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے اعرابی کہا گیا ہے، یعنی بادیہ نشین۔ اس کے معنی بدوی اور دیہاتی کے ہیں۔ یہ اعرابی کون تھے؟ بعض نے کہا ہے کہ وہ ذوالخویصرۃ یمانی تھے اور وہ شہری آداب سے ناواقف تھے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ «معكبر الضبيي» تھے۔
«طَائِفَةِ الْمَسْجِدِ» مسجد کا ایک کونہ یا کنارہ، یعنی مسجد کی ایک جانب۔
«فَزَجَرَهُ النَّاسُ» لوگوں نے اسے ڈانٹا، جھڑکا، سختی سے منع کیا۔
«فَنَهَاهُمْ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور پیشاب رکوانے کی کوشش سے منع فرمایا کیونکہ پیشاب منقطع کرنا ضرر رساں ہے اور بسا اوقات ایسا کرنے سے گردے اور مثانے کا خطرناک مرض لاحق ہو جاتا ہے، نیز اس طرح پیشاب کا منقطع کرنا بدن، لباس اور مسجد کے دوسرے حصوں کو نجس اور گندہ کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
«بِذَنُوبٍ» ذال کے فتحہ کے ساتھ ہے۔ پانی سے لبالب بھرے ہوئے ڈول کو کہتے ہیں۔
«فَأُهٰرِيقَ» دراصل «أُرِيقَ» تھا، ہمزہ کو ہا سے بدل کر اس پر مزید ایک ہمزے کا اضافہ کر دیا گیا۔ جس کے معنی ہیں: انڈیل دیا گیا۔

فوائد و مسائل:
➊ امام ترمذی نے بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے اور سے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ آدمی کا پیشاب ناپاک ہے۔ امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے، نیز یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ زمین اگر ناپاک ہو تو پانی سے پاک ہو جاتی ہے، خواہ زمین نرم و سہل ہو یا سخت و صعب۔
➋ اس حدیث سے مسجد کی عظمت اور اس کا احترام، نادان آدمی کے ساتھ نرمی کرنا، سختی اور درشتی نہ کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن خلق، نہایت عمدہ طریقے سے تعلیم دینا اور دوسرے کئی ایک مسائل نمایاں ہیں۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا انس رضی اللہ عنہ: ER رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص ہیں۔ ان کو ان کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت کے لیے خدمت گار کے طور پر پیش کر کے سعادت حاصل کی۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے لے کر آخری سانس تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمات کرتے رہے۔ ابوحمزہ ان کی کنیت تھی۔ خزرج کے قبیلہ نجار سے ہونے کی وجہ سے نجاری خزرجی کہلاے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں بصرہ کو جائے سکونت بنایا اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ نے 91 یا 92 یا 93 ہجری میں وفات پائی جب کہ آپ کی عمر 99 یا 103 سال تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 10   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 221  
´مسجد میں پیشاب پر پانی بہا دینے کے بیان میں`
«. . . سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
. . . میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے پیشاب) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بہا دیا گیا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ صَبِّ الْمَاءِ عَلَى الْبَوْلِ فِي الْمَسْجِدِ:: 221]
تشریح:
باب کا منشا ان احادیث سے صاف روشن ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 221   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6025  
6025. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو صحابہ کرام اس کی طرف دوڑ پڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کے پیشاب کو مت روکو۔ اس کے بعد آپ نے پانی کا ڈول منگوایا اور پیشاب کی جگہ پر بہا دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6025]
حدیث حاشیہ:
اخلاق محمدی کا ایک نمونہ اس حدیث سے ہی ظاہر ہے کہ دیہاتی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کر دیا مگر آپ نے اسے روکنے کے بجائے اس پر پانی ڈلوا دیا بعد میں بڑی نرمی سے اسے سمجھا دیا۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6025   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 221  
´ مسجد میں پیشاب پر پانی بہا دینے کے بیان میں `
«. . . سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ` ایک دیہاتی شخص آیا اور اس نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کر دیا۔ لوگوں نے اس کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا۔ جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (کے پیشاب) پر ایک ڈول پانی بہانے کا حکم دیا۔ چنانچہ بہا دیا گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ صَبِّ الْمَاءِ عَلَى الْبَوْلِ فِي الْمَسْجِدِ: 221]
تخريج الحديث:
[162۔ البخاري فى: 78 كتاب الأدب: 35 باب الرفق فى الأمر كله 221، مسلم 284، ترمذي 148]
لغوی توضیح:
«اَعْرَابِيًّا» دیہاتی۔
«لَا تُزْرِمُوْهُ» اس کے پیشاب کو اس پر مت روکو۔ معلوم ہوا کہ جاہل کے ساتھ نرمی برتنی چاہئیے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل میں مصلحت بھی تھی کہ اگر اسے روکا جاتا تو ممکن تھا اسے پیشاب کی کوئی تکلیف ہو جاتی اور پھر وہ ادھر اُدھر بھاگتا تو اس کے کپڑے اور دوسری جگہیں بھی پلید ہو جاتیں جبکہ ایک ہی جگہ سے اس کے پیشاب کو دھونا آسان تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ زمین کو پاک کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس پر پانی بہا دیا جائے۔ علاوہ ازیں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ زمین سورج یا ہوا سے خشک ہو جائے حتیٰ کہ نجاست کا اثر باقی نہ رہے تو بھی اسے پاک ہی شمار کیا جاتا ہے کیونکہ جس نجاست کی وجہ سے اس پر پلیدگی کا حکم لگایا گیا تھا اب وہ باقی ہی نہیں رہی لہٰذا اس کا حکم بھی نہ رہا۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 162   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 10  
«والنجاسات هي غائط الإنسان وبوله»
اور نجاستیں یہ ہیں: مطلق طور پر انسان کا پیشاب اور پاخانہ۔
➊ اس پر امت کا اجماع ہے۔ [بداية المجتهد 73/1] ۳؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا وَطِئَ أَحَدُكُمْ بِنَعْلِهِ الْأَذَى، فَإِنَّ التُّرَابَ لَهُ طَهُورٌ»
جب تم میں سے کوئی (چلتے ہوئے) اپنی جوتی کو گندگی لگا دے تو مٹی سے پاک کر دیتی ہے۔ [أبو داود 385]
ایک روایت میں یہ الفاظ مرفوعا مروی ہیں:
«إِذَا وَطِئَ الْأَذَى بِخُفَّيْهِ، فَطَهُورُهُمَا التُّرَابُ»
جب کوئی اپنے موزوں کو گندگی لگا دے تو انہیں پاک کرنے والی مٹی ہے۔ [أبو داود 386] ۴؎
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں پیشاب کرنے والے دیہاتی کے پیشاب پر پانی کا ڈول بہا دینے کا حکم دیا۔ [بخاري 221] ۵؎
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کا پیشاب نجس ہے اور یہ متفق علیہ مسئلہ ہے۔ [نيل الأوطار 88/1]
------------------
۳؎ [بداية المجتهد 73/1، المغني 52/1، فتح القدير 135/1، كشاف القناع 213/1، مغني المحتاج 77/1، اللباب 55/1، الشرح الصغير 49/1]
۴؎ [صحيح: صحيح أبو داود 372، 371 كتاب الطهارة: باب فى الأذي يصيب النعل، بيهقي 430/2، ابن حبان ص85ء الموارد، حاكم 166/1، ابن خزيمة 148/1، شرح معاني الآثار 511/1، أبو داود 385، 382]
۵؎ [بخاري 221، كتاب الوضوء: باب صب الماء على البول فى المسجد، مسلم 284، ترمذي 148، نسائي 175/1، ابن ماجة 528، شرح معاني الآثار13/1، ابوعوانة 213/1، عبدالرزاق 1660، بيهقي 327/2، أحمد 110/3، دارمي 189/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 142   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 55  
´پانی کی عدم تحدید کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی مسجد میں آیا اور پیشاب کرنے لگا، تو لوگ اس پر چیخے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو (کرنے دو) تو لوگوں نے اسے چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا جو اس پر بہا دیا گیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 55]
55۔ اردو حاشیہ: اس شخص کا نام ذوالخویصرہ تھا، چونکہ وہ پیشاب شروع کرچکا تھا اور جگہ بھی پلید ہو چکی تھی، اس لیے اسے روکنا بے فائدہ تھا، اب اسے روکتے تو ممکن تھا کہ پیشاب نہ رکتا اور وہ چلتے چلتے باقی مسجد بھی پلید کر ڈالتا یا پیشاب رک جاتا تو اس کے مثانے میں خرابی واقع ہو جاتی۔ گویا نبیٔ اکرام صلی اللہ علیہ وسلم نے دو متحقق خرابیوں اور مفاسد میں سے اس مفسدے کو برداشت اور اختیار کرنے کی تلقین کی جو نسبتاً دوسرے سے قباحت میں کم تھا اور وہ تھا مسجد میں پیشاب کرنا، جبکہ دوران پیشاب میں دیہاتی کو پیشاب کرنے سے روکنا، یہ اس سے بھی بڑھ کر اس کے لیے اذیت ناک تھا اور مسجد میں مزید آلودگی پھیلنے کا خدشہ بھی تھا، لہٰذا اس دلیل کو مدنظر رکھتے ہوئے علمائے اسلام نے اس حدیث سے أخف الضررین، یعنی خفیف ترین ضرر اور اذیت کو بڑی اذیت اور قباحت کے مقابلے میں اختیار کرنے کا قاعدہ استخراج کیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 55   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 330  
´پانی (جو نجاست پڑنے سے ناپاک نہیں ہوتا) کی تحدید کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی مسجد میں پیشاب کرنے لگا، تو کچھ لوگ اس کی طرف بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے نہ روکو (پیشاب کر لینے دو) جب وہ پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی منگا کر اس پر بہا دیا۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 330]
330۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 54، 56، 57 اور ان کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 330   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1230  
1230- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کردیا۔ لوگ اس کی طرف (گھور کر) دیکھنے لگے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا اور ارشاد فرمایا: اس پر پانی کاایک ڈول بہادو۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1230]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی کم علم انسان غیر مناسب جگہ پر پیشاب کرنے لگے تو اس کوفوراً وہاں سے اٹھانا درست نہیں ہے، بلکہ اس کو پیشاب کرنے دیا جائے، جب وہ فارغ ہو جائے تو اس کو شفقت سے سمجھا دینا چاہیے، اور جس جگہ پیشاب کیا تھا اس پر ایک ڈول پانی بہا دینا چاہیے، اس سے وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1228   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 659  
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نے مسجد میں پیشاب کرنا شروع کر دیا، بعض لوگ اس کی طرف اٹھ کر چلے (تاکہ اس کو روک دیں) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑو، اس کا پیشاب درمیان میں مت روکو، جب وہ فارغ ہو گیا، تو آپﷺ نے پانی کا ڈول منگوایا، اور اسے اس پر ڈال دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:659]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لَاتُزْرِمُوْهُ:
زَرَمَ اور ازْرَام کا اصل معنی کاٹنا،
قطع کرنا ہے،
یہاں مقصد ہے،
پیشاب درمیان میں قطع نہ کرو،
اسے کر لینے دو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 659   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 660  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدوی مسجد کے ایک کونے میں کھڑا ہو کر پیشاب کرنے لگا، اس پر لوگ چلائے (اس کو آواز دی) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اسے چھوڑو۔ جب وہ فارغ ہوا، تو آپﷺ نے اس کے بول پر پانی سے بھرے ہوئے ڈول کے ڈالنے کا حکم دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:660]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
صَاحَ بِهِ:
اس کو آواز دی،
پکارا یا ڈانٹا۔
(2)
صَبَّ المَاءَ:
پانی گرایا،
یا ڈالا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 660   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 661  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اس دوران، اچانک ایک بدوی آیا، کھڑے ہو کر پیشاب کرنا شروع کر دیا، تو رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں نے کہا، رک جا، رک جا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کا بول درمیان میں مت کاٹو، اسے چھوڑو۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اسے چھوڑ دیا، حتیٰ کہ اس نے پیشاب کر لیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا: یہ مساجد پیشاب یا کسی اور گندگی کے مناسب نہیں، یہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:661]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

حدیث سے معلوم ہوا آدمی کا بول پلید ہے اور اگر مسجد ناپاک ہو جائے تو اسے فوراً دھو کر پاک کر لینا چاہیے۔

ناواقف اور جاہل کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے نیز دو خرابیوں میں ایک کو اختیار کرتے وقت کم درجہ والی خرابی کو قبول کرنا چاہیے۔

زمین پر اگر نجاست پڑی ہو تو اس کے ازالہ کے لیے اس پر پانی بہانا کافی ہے زمین کو کھودنے کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری حدیث سے معلوم ہوا،
جاہل کو مسئلہ نرمی اور پیار سے سمجھا دینا چاہیے۔

مساجد بنانے کا اصل مقصد اللہ کا ذکر،
نماز،
وعظ ونصیحت،
دین کی تعلیم اور تلاوت قرآن ہے۔
اور ان کو ہر اس کام سے بچنا چاہیے۔
جو مساجد کی عظمت وتقدس کے منافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 661   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:219  
219. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک دیہاتی کو دیکھا جو مسجد میں پیشاب کر رہا تھا، آپ نے فرمایا: اسے کچھ نہ کہو۔ تاآنکہ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ نے پانی منگوایا اور اسے پیشاب پر بہا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:219]
حدیث حاشیہ:

انسانی پیشاب کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے تین ابواب میں یہ بتایا ہے کہ اس کامعاملہ بہت اہم اور سنگین ہے۔
اس میں معمولی سی بے احتیاطی سے عذاب قبر کا اندیشہ ہے۔
ایک طرف اس قدر اہمیت کا بیان، جبکہ دوسری طر ف اس کے برعکس ایک اور صورت سامنے آتی ہے کہ ایک اعرابی آیا، مسجد نبوی میں نماز ادا کی اورمسجد ہی کے کونے میں پیشاب کرنے لگا، صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کا نوٹس لیناچاہتے تھے، لیکن آپ نے انھیں منع فرمادیا۔
اس صورت حال سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب کا معاملہ اتنااہم نہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایت کے پیش نظر یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ معاملہ سنگین نہیں بلکہ اس مقام پر ایک اوراصول کے تحت تخفیف کی گئی ہے۔
وہ اصول یہ ہے کہ جب انسان دو مصیبتوں میں گھرجائے تو اسے آسان مصیبت اختیار کرلینی چاہیے۔
اس مقام پر دومصیبتیں یہ تھیں:
ایک مسجد کی تلویث (آلودگی وگندگی)
دوسرے، اعرابی کا بیماری کا اندیشہ۔
دیہاتی نے تو پیشاب شروع کردیاتھا، اب فرش کی حفاظت تو نا ممکن تھی جوہوناتھا وہ ہوچکاتھا، البتہ اس کی تلافی ممکن تھی لیکن اگر اعرابی کو پکڑا جاتا تو اس کے بھاگنے سے معاملہ مزید خراب ہوجاتا، اس کی بیماری بلکہ جان کو بھی خطرہ تھا، اس لیے ہلکی مصیبت کواختیار کرلیا گیا کہ وہ اطمینان سے پیشاب کرلے، بعد میں آپ نے تین کام کیے:
پانی کا ایک ڈول منگوایا اور اسے اعرابی کے پیشاب پر بہادیاگیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کونصیحت فرمائی کہ ہمارا کام سختی کرنا نہیں بلکہ لطف ومہربانی سے پیش آنا ہے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 220)
اعرابی کو نرمی سے سمجھایا کہ مسجدیں نماز، اللہ کے ذکر اور تلاوت قرآن کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں۔
گندگی پھیلانے سے ان کا تقدس مجروح ہوتاہے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 661(285)
)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نےلکھا ہے کہ اس دیہاتی کو پیشاب سے اس لیے نہیں روکا گیا کہ وہ برائی کا آغاز کرچکا تھا جس کوروکنے سے اس میں مزید اضافہ ہوجاتا۔
اگر اسے روکا جاتا تو دو کاموں میں سے ایک ضرور ہوتا:
اگر وہ مارے خوف کے پیشاب روک لیتا تو اس سے ضرر اور بیماری کااندیشہ تھا۔
اگروہ پیشاب نہ روکتا اور ادھر اُدھر بھاگنا شروع کردیتا تو مسجد کے بہت سے حصے اس سے متاثر ہوتے۔
مزید برآں اس کے کپڑے بھی پلید ہوجاتے۔
(فتح الباري: 421/1)

اس حدیث سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں:
مساجد کو نجاست اور پلیدی سے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں جلدی کرنی چاہیے۔
دوبُرائیوں میں سے بڑی بُرائی کو دورکرنے کے لیے ایک چھوٹی بُرائی کا ارتکاب جائز ہے۔
جاہل لوگوں سے نرمی، سہولت اور تالیف قلب کا برتاؤ کرنا چاہے۔
اگرمانع نہ ہوتو ازالہ مفاسد میں جلدی کرنی چاہیے۔

امت کا اجتماعی مزاج لوگوں کے لیے آسانی پیداکرتا ہے، لہذا ہمیں اس کی نزاکت کااحساس کرنا چاہیے۔
معمولی معمولی باتوں کی وجہ سے دوسروں کو دین اسلام سے خارج قراردینا، لوگوں میں دینی معاملات سے متعلق بے زاری پیدا کرنا ہے، اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے جسے مٹانے کے لیے ہمیں پابند کیاگیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 219   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:221  
221. ہمیں عبدان نے بیان کیا ہے، ان کو عبداللہ نے، ان کو یحییٰ بن سعید نے بتلایا۔ انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک ؓ کو نبی ﷺ سے بیان کرتے ہوئے سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:221]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تراجم ابواب بخاری میں لکھا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض طہارت زمین کاطریقہ بتانا ہے کہ وہ مطلقاً پانی بہا دینے سے حاصل ہوگی۔
اس میں نقل تراب(مٹی اٹھانے)
یاحفر مسجد(مسجد کے کھودنے)
کی ضرورت نہیں، جیسا کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے یا آپ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر زمین نرم ہو توپانی بہادینا اس کی طہارت کے لیے کافی ہے جیسا کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ مسلک ہے۔
اس سے معلوم ہواکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک پوری طرح متعین نہیں ہوسکا کہ وہ حنفیہ کے موافق ہے یا شافعیہ کے۔
واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک کتاب وسنت کا اتباع ہے، انھیں نہ تو کسی کی موافقت کی ضرورت ہے اور نہ کسی کی مخالفت ہی سے انھیں کوئی غرض ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامسلک وہ ٹھوس اورخاموش تراجم ہیں جو انھوں نے اپنی صحیح میں قائم کیے ہیں، پھر ان کے ثبوت کے لیے ناقابل تردید صحیح احادیث ہیں۔

جس اعرابی نے مسجد کے کونے میں پیشاب کیاتھا اس کا نام کیاتھا؟ وہ یمانی تھا یا تمیمی؟ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ذوالخویصرہ تمیمی تھا جس کا نام حرقوص بن زہیر ہے اور جوبعد میں خوارج کا سرغنہ ثابت ہوا۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اقرع بن حابس یا عیینہ بن حصن تھا۔
والعلم عنداللہ (فتح الباری: 422/1)
ترمذی کی روایت میں ہےکہ جب وہ اعرابی آیا تو اس نے مسجد میں نماز ادا کی، پھر دعا کرنے لگا:
اے اللہ! تو صرف مجھ پر اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
پر رحم کر اوررحم کرنے میں ہمارے علاوہ کسی اور کو شامل نہ کر۔
رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
تو نے اللہ کی رحمت کو تنگ کردیا ہے۔
پھر وہ اٹھا اور مسجد کے کونے میں پیشاب کرنے لگا۔
(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 147)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 221   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6025  
6025. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو صحابہ کرام اس کی طرف دوڑ پڑے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کے پیشاب کو مت روکو۔ اس کے بعد آپ نے پانی کا ڈول منگوایا اور پیشاب کی جگہ پر بہا دیا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6025]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرم مزاجی کے متعلق قرآن کریم نے شہادت دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہیں۔
اگر آپ تند مزاج اور سنگدل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے تتر بتر ہوجاتے۔
(آل عمران3: 159)
اسی نرمی کا مظاہرہ آپ نے اس دیہاتی کے ساتھ فرمایا جس نے مسجد میں پیشاب کر دیا تھا۔
آپ نے اخلاق کریمانہ کے سبب اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
اسے پیشاب کر لینے دو بصورت دیگر یہ بیمار ہو جائے گا اور مسجد میں بھی زیادہ آلودگی پھیلے گی۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس واقعے سے نرمی اختیار کرنے کو ثابت کیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ جو انسان نرمی سے محروم کر دیا گیا وہ گویا ہر قسم کی خیروبرکت سے محروم ہو گیا۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6598(2592)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
عائشہ! اللہ تعالیٰ خود بھی نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی کرنے پر وہ کچھ دیتا ہے جو سختی اختیار کرنے پر نہیں دیتا۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6601(2593)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6025