ثابت بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے بارے میں سوال کیا، تو وہ بولے: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں، پھر انہوں نے اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی انگلی کو بلند کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5287]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/المساجد 39 (640)، اللباس 16 (2095)، (تحفة الٔاشراف: 333)، مسند احمد (3/276) (صحیح) (انس رضی الله عنہ سے یمین اور یسار یعنی دائیں اور بائیں ہاتھ دونوں میں انگوٹھی پہنے کا ذکر آیا ہے، جس کے بارے میں احادیث کی صحت کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ کبھی دائیں ہاتھ میں پہنے دیکھا اور کبھی بائیں میں، اور بعض اہل علم کے یہاں بائیں میں پہنے والی حدیث راجح اور محفوظ ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الإرواء 3/298، 302، وتراجع الالبانی 159)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ بتار ہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی چھنگلی انگلی میں پہنتے تھے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5287
اردو حاشہ: ”اٹھایا“ ان کا مقصد یہ بتانا تھا کہ آپ بائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی میں انگوٹھی پہنتے تھے لیکن دیگر کثیر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے کیونکہ یہ زینت ہے اور آپ اچھے امور میں دائیں ہاتھ کو ترجیح دیتے تھے خصوصاً جب کہ آپ کی انگوٹھی میں اللہ تعالیٰ اور خود آپ کا نام نامی تھا اوربایاں ہاتھ تو استنجا وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے۔ کیا ایسے متبرک اور مقدس نام استنجا والے ہاتھ کے لائق ہے؟ ہر گز نہیں۔ ہاں! یہ ممکن ہے کہ کبھی کبھار بائیں ہاتھ میں ڈالی گئی ہو۔ ویسے بھی عموماً کام دائیں ہاتھ سے کیے جاتے ہیں۔ آپ مہر لگانے کےلیے انگوٹھی پہنتے تھے اور مہر لگانا بھی ایک کام ہے لہٰذا یہ بھی دائیں ہاتھ ہی سے ہونا چاہیے اور بہ تبھی ہوگا اگر انگوٹہی دائیں ہاتھ میں ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5287