الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
53. بَابُ : نَزْعِ الْخَاتَمِ عِنْدَ دُخُولِ الْخَلاَءِ
53. باب: پاخانہ جاتے وقت انگوٹھی اتار دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5221
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ:" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ، وَكَانَ فَصُّهُ فِي بَاطِنِ كَفِّهِ، فَاتَّخَذَ النَّاسُ خَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، فَطَرَحَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَرَحَ النَّاسُ خَوَاتِيمَهُمْ، وَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ , فَكَانَ يَخْتِمُ بِهِ وَلَا يَلْبَسُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی، اس کا نگینہ آپ اپنی ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے، پھر لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، یہ دیکھ کر آپ نے اسے نکال پھینکی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں نکال پھینکیں، پھر آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی، اس سے آپ (خطوط پر) مہریں لگاتے تھے، اسے پہنتے نہیں تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5221]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 7614)، سنن الترمذی/الشمائل 11، رقم: 83، ویأتي عند المؤلف برقم: 5294 (صحیح) (حدیث میں ’’ولایلبسہ‘‘ کا لفظ ’’شاذ‘‘ ہے، بقیہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت: ۱؎: یعنی اکثر اوقات میں نہیں پہنتے تھے، ورنہ یہ ثابت ہے کہ آپ انگوٹھی پہنا کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله ولا يلبسه فإنه شاذ

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

   صحيح البخارياتخذ خاتما من ذهب وجعل فصه مما يلي كفه فاتخذه الناس فرمى به
   صحيح البخاريلا ألبسه أبدا فنبذ الناس خواتيمهم
   صحيح البخارياتخذ رسول الله خاتما من ورق وكان في يده ثم كان بعد في يد أبي بكر
   صحيح البخارياتخذ خاتما من فضة فاتخذ الناس خواتيم الفضة قال ابن عمر فلبس الخاتم بعد النبي أبو بكر
   صحيح البخاريلا ألبسه أبدا
   صحيح البخارياصطنعته وإني لا ألبسه فنبذه فنبذ الناس
   صحيح مسلماتخذ النبي خاتما من ذهب ثم ألقاه ثم اتخذ خاتما من ورق ونقش فيه محمد رسول الله
   صحيح مسلماتخذ رسول الله خاتما من ورق فكان في يده ثم كان في يد أبي بكر
   صحيح مسلمألبس هذا الخاتم وأجعل فصه من داخل فرمى به
   جامع الترمذياتخذت هذا الخاتم في يميني ثم نبذه ونبذ الناس خواتيمهم
   سنن أبي داوديتختم في يساره وكان فصه في باطن كفه
   سنن أبي داودلا ألبسه أبدا ثم اتخذ خاتما من فضة نقش فيه محمد رسول الله
   سنن النسائى الصغرىألبس هذا الخاتم وأجعل فصه من داخل فرمى به
   سنن النسائى الصغرىلا ينبغي لأحد أن ينقش على نقش خاتمي هذا وجعل فصه في بطن كفه
   سنن النسائى الصغرىألبس هذا الخاتم وإني لن ألبسه أبدا فنبذه فنبذ الناس خواتيمهم
   سنن النسائى الصغرىاتخذ خاتما من فضة فكان يختم به ولا يلبسه
   سنن النسائى الصغرىاتخذ رسول الله خاتما من ورق فأدخله في يده ثم كان في يد أبي بكر ثم كان في يد عمر ثم كان في يد عثمان حتى هلك في بئر أريس
   سنن النسائى الصغرىلا ألبسه أبدا وألقى الناس خواتيمهم
   سنن النسائى الصغرىلا ألبسه أبدا
   سنن النسائى الصغرىلا ينبغي لأحد أن ينقش على نقش خاتمي هذا ثم جعل فصه في بطن كفه
   سنن النسائى الصغرىأمر بخاتم من فضة فأمر أن ينقش فيه محمد رسول الله وكان في يد رسول الله حتى مات
   سنن النسائى الصغرىاتخذ خاتما من ذهب وكان فصه في باطن كفه فاتخذ الناس خواتيم من ذهب فطرحه رسول الله فطرح الناس خواتيمهم
   سنن النسائى الصغرىألبس هذا الخاتم وإني لن ألبسه أبدا فنبذه فنبذ الناس خواتيمهم
   سنن النسائى الصغرىنقش خاتم رسول الله محمد رسول الله
   سنن ابن ماجهيجعل فص خاتمه مما يلي كفه
   سنن ابن ماجهلا ينقش أحد على نقش خاتمي هذا
   موطا امام مالك رواية ابن القاسملا البسه ابدا
   مسندالحميدياتخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم خاتما من ذهب، ثم ألقاه واتخذ من فضة فصة منه، وجعل فصه من باطن كفه، ونقش فيه محمد رسول الله ونهى أن ينقش أحد عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5221 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5221  
اردو حاشہ:
(1) اتار پھینکیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس طرح کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے افعال کی اقتدا بھی اسی طرح ضروری تھی اور ہے جس طرح آپ کے اقوال و احکام اور فرامین کی، الا یہ کہ خصوص کی کوئی دلیل ہو۔
(2) ان احادیث کی باب سے مناسبت کے بار ے میں دیکھیے، فائدہ حدیث:5217۔
(3) اسے پہنتے نہیں تھے یعنی ہمیشہ نہیں پہنتے تھے تاہم اکثر اسے پہنا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5221   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 421  
´سونے کی انگوٹھی پہننے کی حرمت`
«. . . 291- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يلبس خاتما من ذهب، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فنبذه، وقال: لا ألبسه أبدا، فنبذ الناس خواتيمهم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اسے پھینک دیا اور فرمایا: میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ تو لوگوں نے بھی اپنی (سونے کی) انگوٹھیاں پھینک دیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 421]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5867، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مردوں کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں ہے بلکہ بعض استثنائی اُمور کو چھوڑ کر سونے کی ہر چیز کا استعمال ممنوع ہے۔
➋ صحابۂ کرام میں اتباعِ سنت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت کتاب وسنت پر عمل کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے تھے۔
➌ شرعی احکامات میں ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ برحق ہے اور کئی مقامات پر بعض احکامات منسوخ ہوئے ہیں۔
➍ سونے اور لوہے کی انگوٹھی کو چھوڑ کر دوسری انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: انگوٹھی پہنو اور لوگوں کو بتاؤ کہ میں نے تجھے یہ فتویٰ دیا ہے۔ (الموطأ 2/936 ح1808، وسنده صحيح]
➎ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ (کی انگلی) میں انگوٹھی پہنی ہے۔ [ديكهئے صحيح مسلم: 2٠94/62، دارالسلام: 5487]
آپ نے بائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں بھی انگوٹھی پہنی ہے۔ [صحيح مسلم: 2095، دارالسلام: 5489]
معلوم ہوا کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ اسی پر قیاس کرتے ہوئے عرض ہے کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں کی کلائیوں پر گھڑی باندھنا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 291   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5167  
´سونے کی انگوٹھی کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پہنا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھی بنوائی، آپ نے فرمایا: میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا لیکن اب کبھی نہیں پہنوں گا اور اسے پھینک دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5167]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ابتداء مردوں کے لیے بھی سونے کی انگوٹھی پہننی جائز تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اور آپ کے ساتھ ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں اور پہنیں۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت بھی آشکارا ہوتی ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی انگوٹھی پہنی ہوئی ہے تو انہوں نے سونے کی انگوٹھیاں بنوا کر پہن لیں اور جب نبئ اکرم ﷺ نے اتار پھینکی تو ان سب نے بھی اتار دیں۔ رسول کریم ﷺ کے تمام اقوال و افعال میں حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فرماں برداری کا یہی تھا الا یہ کہ کوئی عمل آپ کی خصوصیت ہو۔
(3) مردوں کے لیے یقیناً سونے کی انگوٹھی پہننے کی بابت، اہل شام کے بعض علماء کے علاوہ تمام اہل اسلام کا اس کے جواز پر اتفاق ہے۔ دیگر صحیح روایات میں صراحت ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی انگوٹھی بنوالی تاکہ خطوط وفرامین پر مہر لگا سکیں۔ نبئ اکرم ﷺ کے بعد وہی انگوٹھی خلیفۂ رسول، خلیفہ بلافصل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پہنی، پھر ان کے بعد خلیفۂ ثانی، امیر المومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے پہنی، پھر ان کے بعد تیسرے خلیفۂ راشدین حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے پہنی حتیٰ کہ وہ انگوٹھی بئر اریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ ملی۔ (صحیح البخاري، اللباس، باب خاتم الفضة، حدیث:5866، وصحیح مسلم، اللباس والزینة، باب لبس النبي ﷺ خاتما من ورق.....، حدیث: 2019)
(4) کبھی نہیں پہنوں گا گویا اجازت منسوخ ہوگئی۔ آئندہ احادیث میں حرمت کی صراحت ہے۔
(5) اتار پھینکی پھر پکڑلی یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اٹھا کر پکڑا دی ہوگی۔ بعض کا خیال ہے یہ مطلب نہیں کہ اتار کر زمین پر پھینک دی بلکہ جیب وغیرہ میں ڈال لی کیونکہ مال ضائع کرنا حرام ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5167   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5220  
´پاخانہ جاتے وقت انگوٹھی اتار دینے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن تک سونے کی انگوٹھی پہنی، پھر جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کو دیکھا تو سونے کی انگوٹھی عام ہو گئی۔ یہ دیکھ کر آپ نے اسے نکال پھینکا۔ پھر معلوم نہیں وہ کیا ہوئی، پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی کا حکم دیا اور حکم دیا کہ اس میں محمد رسول اللہ نقش کر دیا جائے، وہ انگوٹھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں رہی یہاں تک کہ آپ کی وفات ہو گئی، پھر ابوبکر رضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5220]
اردو حاشہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کی مبارک انگوٹھی آپ کی وفات کے بعد خلفاء کے ہاتھ میں بطور ضرورت وتبرک رہی نہ کہ بطور ملکیت۔ جب وہ انگوٹھی گم ہو گئی تو فتنہ وفساد کا دور شروع ہو گیا۔ گویا ایک بہت بڑی برکت اٹھ گئی۔ آخر خاتم النبین ﷺ کی انگوٹھی تھی۔ فداه أبي وأمي، نفسي وروحي ﷺ۔
(2) خطوط کی کثرت تو ان کو بار بار مہر لگانے میں وقت ہوتی تھی۔ انہوں نے مہر لگانے کے لیے ایک انصاری کو مقرر فرما لیا۔
(3) ایک کنویں اس کنویں کا نام بئر اریس تھا۔ انگوٹھی تلاش کرنے کے لیے کنویں کو پانی سے خالی کیا گیا اور پھر انچ انچ جگہ چھانی گئی مگر انگوٹھی کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ إِنّا لِلَّـهِ وَإِنّا إِلَيهِ ر‌اجِعونَ۔
(4) الفاظ کندہ کروائے احادیث صحیحہ میں واضح طورپر موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگوٹھیوں پر یہ الفاظ کندہ کرانے سے لوگوں کوروک دیا تھا لیکن یہ انگوٹھی تواصل انگوٹھی کے قائم مقام تھی، اس لیے اس پر یہ الفاظ کندہ کرائے گئے، نیز آپ کا مقصد اشتباہ اور جعل سازی کی بندش تھا۔ اصل کے گم ہونے پر نقل کی تیاری سے یہ خدشہ نہیں ہوتا۔ اشتباہ اور جعل سازی توتب ہوتی اگر بیک وقت کئی انگوٹھیاں ایک نقش والی ہوتیں۔ گویا احکام کا مدار مقاصد ہوتے ہیں نہ کہ ظاہر الفاظ۔ اور یہ بات یاد رکھنے کی ہے۔ اس جیسے نقش والی انگوٹھی بنوانے سے ممانعت کی اک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اس نقش کی حیثیت سرکار ی تھی، اس لیے آپ کے بعد خلفائے راشدین وہ انگوٹھی استعمال کرتے رہے اور اس کے گم ہونے پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی نقش والی انگوٹھی بنوائی۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5220   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5277  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور اس کے نقش کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی بنوائی، پھر اسے پہنا تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، آپ نے فرمایا: میں اس انگوٹھی کو پہن رہا تھا، لیکن اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا، چنانچہ آپ نے اسے پھینک دی، تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5277]
اردو حاشہ:
اتار پھینکنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے انہیں بانداز نفرت اتار لیا اور آئندہ کبھی نہ پہننے کا عزم کرلیا تو یوں سمجھو، پھینک دیا۔ یہ لفظ نفرت پر دلالت کرتا ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5277   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5290  
´(انگوٹھی میں) نگینہ کی جگہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سونے کی انگوٹھی پہنتے تھے، پھر آپ نے اسے اتار پھینکا اور چاندی کی انگوٹھی پہنی، اور اس پر «محمد رسول اللہ» نقش کرایا، پھر فرمایا: کسی کے لیے جائز نہیں کہ میری اس انگوٹھی کے نقش پر کچھ نقش کرائے، آپ نے اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5290]
اردو حاشہ:
ہتھیلی کی جانب کیونکہ آپ کا مقصد انگوٹھی پہننے سے زینت نہیں تھا مہر لگانا تھا۔ نگینہ ہاتھ کی پشت کی طرف رکھنا زینت کےلیے ہوتا اور ایسی زینت مرد کومناسب نہیں اگرچہ اس سے منع بھی نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5290   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5292  
´انگوٹھی اتار دینے اور نہ پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی، آپ اسے پہنتے تھے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے، تو لوگوں نے بھی (انگوٹھیاں) بنوائیں، پھر آپ منبر پر بیٹھے اور اسے اتار پھینکا اور فرمایا: میں یہ انگوٹھی پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا، پھر آپ نے اسے پھینک دی، پھر فرمایا: اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا، پھر لوگوں نے بھی اپنی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5292]
اردو حاشہ:
دیکھیے حدیث:5221۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5292   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5294  
´انگوٹھی اتار دینے اور نہ پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا، تو لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوائیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگوٹھی اتار دی تو لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں اتار دیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، جس سے آپ (خطوط پر) مہر لگاتے تھے اور اس کو پہنتے نہیں تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5294]
اردو حاشہ:
پہننے نہیں تھے  یعنی آپ اسے ہر وقت پہنے نہیں رکھتے تھے بلکہ ضرورت کے وقت پہنتے تھے کیونکہ اس سے آپ کا مقصد زینت نہیں تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5294   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5295  
´انگوٹھی اتار دینے اور نہ پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا، پھر لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوائیں، تو آپ نے اسے نکال دیا اور فرمایا: میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور اسے اپنے ہاتھ میں پہن لیا، پھر وہ انگوٹھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں رہی، پھر عمر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں، پھر عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں یہاں [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5295]
اردو حاشہ:
اس کی تفصیل دیکھیے فوائد ومسائل حدیث: 5220۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5295   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4227  
´انگوٹھی دائیں یا بائیں ہاتھ میں پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی اپنے بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے اور اس کا نگینہ آپ کی ہتھیلی کے نچلے حصہ کی طرف ہوتا تھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن اسحاق اور اسامہ نے یعنی ابن زید نے نافع سے اسی سند سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4227]
فوائد ومسائل:
بائیں ہاتھ والی رویت ضعیف ہے۔
صحیح اور محفوظ دائیں ہاتھ کا بیان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4227   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1741  
´داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی بنائی اور اسے داہنے ہاتھ میں پہنا، پھر منبر پر بیٹھے اور فرمایا: میں نے اس انگوٹھی کو اپنے داہنے ہاتھ میں پہنا تھا، پھر آپ نے اسے نکال کر پھینکا اور لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1741]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
فقہاء کے نزدیک دائیں اور بائیں کسی بھی ہاتھ میں انگوٹھی پہننا جائز ہے،
ان میں سے افضل کون سا ہے،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
اکثر فقہا کے نزدیک دائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے،
اس لیے کہ انگوٹھی ایک زینت ہے اور دایاں ہاتھ زینت کا زیادہ مستحق ہے،
سونے کی یہ انگوٹھی جسے آپ ﷺ نے پہنا یہ اس کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1741   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:692  
692- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسونے کی انگوٹھی پہنی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتاردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پہنی جس کا نگینہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نگینے کو ہتھیلی کی سمت میں رکھتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں محمد رسول اللہ نقش کروایا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا تھا کہ کوئی شخص اس کی مطابق نقش بنوائے۔ یہ وہی انگوٹھی ہے،جو سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ سے اریس کے کنویں میں گر گئی تھی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:692]
فائدہ:
اس نقش کی حیثیت چونکہ سرکاری تھی اس لیے اس جیسے نقش کی انگوٹھی بنوانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس نقش کی سرکاری حیثیت کی وجہ سے ہی بعد میں خلفائے ثلاثہ بھی استعمال کرتے رہے، حتیٰ کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے وہ گم ہوگئی تو انہوں نے اس نقش جیسی والی انگوٹھی دوبارہ بنوائی، البتہ بعض ائمہ کے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے انگوٹھی کے گم ہونے والی روایت صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 692   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5476  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور وہ آپﷺ کے ہاتھ میں رہی، پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی، پھر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہی، حتی کہ ان سے اریس کنواں میں گر گئی، اس پر محمد رسول اللہ نقش تھا، ابن نمیر کی روایت میں ہے، حتی کہ وہ کنویں میں گر گئی، منه، [صحيح مسلم، حديث نمبر:5476]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ چاندی کی انگوٹھی مہر لگانے کے لیے بنوانا درست ہے اور بقول حافظ ابن حجر محض زینت و زیبائش کے لیے پہننا خلاف اولیٰ ہے اور جمہور علماء مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی جائز قرار دیتے،
اور بعض کے نزدیک حاکم کے لیے جائز ہے،
کیونکہ اسے مہر لگانے کی ضرورت ہوتی ہے،
دوسروں کے لیے ناپسندیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی جب تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی،
ان کے خلاف فتنہ و فساد برپا نہیں ہوا،
جب اپنے غلام حضرت معیقب کو پکڑاتے یا ان سے لیتے وقت اریس نامی کنویں میں گر گئی جو مسجد قباء کے قریب ایک باغ میں تھا اور اب ایک بڑی سڑک کی زد میں آ کر ختم ہو چکا ہے تو ان کے خلاف شورش برپا ہو گئی،
جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہو گئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5476   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5477  
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی پہنی، پھر اسے پھینک دیا، پھر چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ نقش کروایا اور فرمایا: میری اس انگوٹھی کے نقش پر کوئی نقش نہ بنوائے۔ اور جب آپﷺ اسے پہنتے تو اس کا نگینہ اپنی ہتھیلی کے اندر کی طرف کر لیتے اور یہی انگوٹھی حضرت معیقیب سے اریس نامی کنویں میں گر گئی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5477]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ انگوٹھی اس وقت گری جبکہ حضرت عثمان کا دور خلافت تھا اور ان کے قبضہ میں تھی،
اس لیے بعض روایات میں گرنے کی نسبت ان کی طرف کی گئی ہے،
کیونکہ ان کے بعد کسی خلیفہ کو ان کی طرف سے منتقل نہیں ہو سکی،
یا اس کی وجہ وہ ہے جو ہم مذکورہ بالا فائدہ میں بیان کر چکے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5477   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5865  
5865. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔ پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5865]
حدیث حاشیہ:
سونے کا استعمال مردوں کے لیے قطعاً حرام ہے جسے حلال جاننے والے پر کفر عائد ہو جاتا ہے۔
عورتوں کے لیے سونے کی اجازت ہے۔
آپ نے یہ انگوٹھی سونے کی حرمت سے پہلے بنوائی تھی بعد میں حرمت نازل ہونے پر اسے پھینک دیا گیا یعنی آپ نے اپنی انگلی سے اسے اتار دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5865   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5866  
5866. سیدبا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب آپ نے دیکھا کو لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی ہیں تو آپ نے انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا: اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہنا، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے (اسے پہنا) پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ سے وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5866]
حدیث حاشیہ:
اور باوجود تمام کوششوں کے مل نہ سکی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5866   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5867  
5867. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نےسونے کی انگوٹھی پہنی تھی، پھر اسے اتار پھینکا اور فرمایا: میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5867]
حدیث حاشیہ:
اور چاندی کی انگوٹھیاں بنا لیں جن کی اب مردوں کے لیے بھی عام اجازت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5867   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5873  
5873. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں تاوفات رہی۔ آپ نے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی، حتیٰ کہ وہ اریس کے کنویں میں گر گئی۔ اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5873]
حدیث حاشیہ:
پھر اس کنویں میں تلاش بسیار کے باوجود وہ انگوٹھی نہ مل سکی۔
معلوم ہوا کہ انگوٹھی کے نگینہ پر اپنا نام نقش کرانا جائز درست ہے باب کا یہی مفہوم ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5873   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5876  
5876. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ آپ نے جس اسے پہنا تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی اندر کی طرف کیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کے بعد فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی لیکن میں اب اسے نہیں پہنوں گا۔ پھرآپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں پھینک دیں جویریہ نے کہا: مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ میں پہننے کے الفاظ بیان کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5876]
حدیث حاشیہ:
کہ آپ انگوٹھی پہنتے تھے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
نافع بن سرجس حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد رکردہ ہیں، حدیث کے بہت ہی بڑے فاضل ہیں اور امام مالک کہتے ہیں کہ جب میں نافع کے واسطہ سے حدیث سن لیتا ہوں تو بالکل بے فکر ہو جاتا ہوں۔
مؤطا میں زیادہ تر روایات حضرت نافع ہی کے واسطے سے مروی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5876   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6651  
6651. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6651]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کسی غیر شرعی چیز کےچھوڑ دینے پر قسم کھانا جائز ہے کہ اب میں اسے ہاتھ نہیں لگاؤں گا جیسا کہ حدیث سےظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6651   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5865  
5865. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا۔ پھر کچھ دوسرے لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں تو آپ ﷺ نے اسے پھینک دیا اور اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا لی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5865]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی حرمت سے پہلے بنوائی تھی، حرمت کے بعد اسے اتار پھینکا۔
مومن کی شان یہی ہے کہ جب کسی چیز کے حرام ہونے کا پتا چل جائے تو پھر اس کے استعمال کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تلاش نہ کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ (کی انگلی)
میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو آپ نے اسے اتار کر پھینک دیا اور فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص آگ کا انگارا اٹھاتا ہے اور اسے اپنے ہاتھ میں ڈال لیتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد اس شخص سے کہا گیا:
اپنی انگوٹھی لے لو، اس سے کوئی فائدہ اٹھا لینا۔
اس نے کہا:
اللہ کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5472 (2090) (2)
بہرحال سونے کی انگوٹھی کسی صورت میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر تلوار کو سونا لگا ہے تو وہ جنگ میں کام آ سکتی ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن سونے کی انگوٹھی استعمال کرنے کے لیے کوئی مجبوری نہیں جس کے پیش نظر اسے مردوں کے لیے حلال قرار دیا جائے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5865   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5866  
5866. سیدبا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے یا چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھا اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔ دوسرے لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ جب آپ نے دیکھا کو لوگوں نے بھی اسی طرح کی انگوٹھیاں بنوا لی ہیں تو آپ نے انگوٹھی کو اتار پھینکا اور فرمایا: اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کے بعد اس انگوٹھی کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے پہنا، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ نے پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ نے (اسے پہنا) پھر حضرت عثمان بن عفان ؓ سے وہ انگوٹھی اریس کے کنویں میں گر گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5866]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کی انگوٹھی پہنی تو اس وقت حرمت کا حکم نازل ہوا، آپ نے اسے اتار پھینکا اور فرمایا:
اب میں اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔
اس کے بعد آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، اس میں "محمد رسول اللہ'' کے الفاظ کندہ کرائے۔
جب آپ بادشاہوں اور حکمرانوں کو خطوط لکھتے تو مہر کے طور پر اسے استعمال کرتے، پھر اس انگوٹھی کو خلفائے ثلاثہ نے بطور تبرک اپنے پاس رکھا۔
چھ سال تک وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی۔
انہوں نے ایک انصاری شخص کو انگوٹھی کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔
وہ انگوٹھی اس کے ہاتھ سے بئر اریس میں گر گئی۔
بعض روایات میں ہے کہ حضرت معیقیب رضی اللہ عنہ سے وہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی تھی پھر تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔
(فتح الباري: 393/10) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے اور انگوٹھی میں کوئی حرف یا عبارت کندہ کرانا بھی جائز ہے، نیز خلیفہ، قاضی یا دوسرے افسران کی مہر کی نقل تیار کرنا جرم ہے کیونکہ اس سے جعل سازی کا دروازہ کھلتا ہے، پھر حدیث میں اس کی ممانعت بھی مروی ہے۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5477 (2091)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5866   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5867  
5867. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نےسونے کی انگوٹھی پہنی تھی، پھر اسے اتار پھینکا اور فرمایا: میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5867]
حدیث حاشیہ:
(1)
سونے کی انگوٹھی پہننے کے بعد سونے کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو آپ نے اسے اتار پھینکا، لوگوں نے بھی آپ کا اتباع کرتے ہوئے اپنی انگوٹھیاں اتار دیں۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی، دوسرے لوگوں نے اپنے لیے چاندی کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی طرف رکھتے تھے۔
واضح رہے کہ یہ عنوان پچھلے عنوان کا تکملہ ہے، اس میں مزید وضاحت ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5867   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5873  
5873. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی وہ انگوٹھی آپ کے ہاتھ میں تاوفات رہی۔ آپ نے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہتی تھی، حتیٰ کہ وہ اریس کے کنویں میں گر گئی۔ اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5873]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد ذوالحجہ چھ ہجری میں جب مدینہ طیبہ واپس آئے تو آپ نے عجمی بادشاہوں کو دعوتی خطوط لکھنے کا ارادہ کیا۔
آپ سے کہا گیا کہ یہ لوگ اس خط کو نہیں پڑھتے جس پر مہر ثبت نہ ہو۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا تاکہ مہر لگنے کے بعد خط کی حیثیت سرکاری ہو جائے۔
(2)
خطوط پر مہر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ حکومتی راز اور سیاسی تدابیر محفوظ رہیں اور ان کا عام چرچا نہ ہو۔
انگوٹھی پر کوئی عبارت بھی کندہ کی جا سکتی ہے۔
اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں بھی کوئی حرج نہیں، البتہ استنجا کے وقت اسے اتار دینا چاہیے۔
نگینے میں کسی کی تصویر کندہ کرنا جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصاویر سے منع فرمایا ہے۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مصنف عبدالرزاق کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر شیر کی تصویر کندہ تھی جسے آپ پہنا کرتے تھے (المصنف لعبدالرزاق، 304/10، رقم: 19469)
لیکن یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف بھی ہے اور صحیح احادیث کے خلاف بھی۔
(فتح الباري: 398/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5873   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5876  
5876. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے پہلے ایک سونے کی انگوٹھی بنوائی۔ آپ نے جس اسے پہنا تو اس کا نگینہ ہتھیلی کی اندر کی طرف کیا۔ لوگوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اللہ تعالٰی کی حمد وثناء کے بعد فرمایا: میں نے سونے کی انگوٹھی بنوائی تھی لیکن میں اب اسے نہیں پہنوں گا۔ پھرآپ نے وہ انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں پھینک دیں جویریہ نے کہا: مجھے یاد ہے کہ انہوں نے دائیں ہاتھ میں پہننے کے الفاظ بیان کیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5876]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نگینہ اندر ہتھیلی کی طرف ہوا کرتا تھا، تاکہ ریاکاری سے محفوظ رہا جا سکے۔
لیکن یہ ضروری نہیں کیونکہ حضرت صلت بن عبداللہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ انگوٹھی دائیں ہاتھ کی چھنگلیا میں پہنتے اور اس کا نگینہ باہر کی طرف رکھتے تھے۔
(سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4229) (2)
اکثر روایات دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کے متعلق ہیں، لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ اپنی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4228)
ایک حدیث میں یہ صراحت بھی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4227)
تاہم یہ روایت شاذ ہے۔
صحیح اور محفوظ روایت یہی ہے کہ آپ دائیں ہاتھ میں پہنا کرتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اگر زینت کے لیے انگوٹھی پہنی جائے تو دائیں ہاتھ میں اور اگر مہر لگانے کے لیے ہے تو بائیں ہاتھ میں بہتر ہے کیونکہ اسے دائیں ہاتھ سے اتار کر اسی ہاتھ سے مہر لگانا آسان ہو گا۔
(فتح الباري: 402/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5876   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6651  
6651. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سونے کی ایک انگوٹھی بنوائی اور آپ نے اسے پہننا شروع کر دیا۔ آپ اس کا نگینہ ہتھیلی کے اندرونی حصے کی طرف رکھتے تھے۔ پھر لوگوں نے بھی ایسی انگوٹھیاں بنوا لیں۔ آپ ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اپنی انگوٹھی اتار کر فرمایا: میں اسے پہنتا تھا اور اس کا نگینہ اندر کی طرف رکھتا تھا۔ پھر آپ نے اسے پھینک دیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! اب میں اسے آئندہ نہیں پہنوں گا۔ اس کے بعد لوگوں نے بھی اپنی انگوٹھیاں پھینک دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6651]
حدیث حاشیہ:
(1)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
تم اپنے قسموں کے لیے اللہ کے نام کو ڈھال نہ بناؤ۔
(البقرة: 224/2)
اس آیت کریمہ کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم کھاتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
اگر ضرورت ہو تو قسم کھائی جائے، بلاوجہ اور بلا ضرورت قسمیں اٹھانا مستحسن اقدام نہیں ہے، ہاں اگر کوئی عظیم مقصد پیش نظر ہو تو مطالبے کے بغیر قسم اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان کا یہی مقصد ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی کہ وہ سونے کی انگوٹھی کبھی نہیں پہنیں گے، حالانکہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قسم کھانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔
(2)
دراصل دور جاہلیت میں لوگ لات و عزی اور اپنے باپ دادا کی قسمیں اٹھاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس رسم بد کا خاتمہ تھا اور آپ بکثرت کلام میں اللہ تعالیٰ کی قسم اس لیے کھاتے تھے تاکہ ان پر واضح کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی قسم کھانا جائز نہیں، نیز لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھایا کریں اور دور جاہلیت کی قسموں کو خیر باد کہہ دیں۔
(فتح الباري: 655/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6651