ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ چھپا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک چھپی ہو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5120]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/النکاح 50 (2174)، سنن الترمذی/الأدب 36 (الاستئذان70) (2787)، (تحفة الأشراف: 15486)، مسند احمد (2/447، 540) (حسن) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ورنہ اس کی سند میں ایک راوی مبہم ہے)»
وضاحت: ۱؎: مردوں کے لیے رنگلین خوشبو اس لیے منع ہے کہ رنگ عورتوں کی چیز ہے جو مردانہ وجاہت کے خلاف ہے، رنگدار خوشبو جیسے زعفران اور خلوق جس کا تذکرہ حدیث نمبر: ۵۱۲۳ (وما بعدہ) میں آ رہا ہے، سند کے لحاظ سے گرچہ وہ روایتیں ضعیف ہیں مگر اس حدیث سے ان کے معنی کو تقویت حاصل ہو رہی ہے اور عورتوں کے لیے یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب عورت گھر سے باہر نکلے، ورنہ شوہر کے ساتھ گھر میں رہتے ہوئے ہر طرح کی خوشبو استعمال کر سکتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ترمذي (2787) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 361
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5120
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے دیگر شواہد کی بنا پر صحیح قراردیا ہے۔ دلائل کی روسے یہی بات درست ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھئے۔ ذخیرة العقبیٰ شرح من النسائي:38؍158۔161) (2)”رنگ مخفی ہو“ معلوم ہوا مردوں کی خوشبو میں ہلکا سا رنگ ہوسکتا ہے جو دور سے نمایاں نہ ہو، مثلاً: کستوری کا رنگ۔ اسی طرح عورتوں کی خوشبو میں معمولی سی مہک ہو جوراستہ چلنے والوں کو محسوس نہ ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ آپ نے نفی نہیں فرمائی بلکہ فرمایا، مخفی ہو۔ گویا معمولی میں کوئی حرج نہیں۔ (3) عورتوں کے لیے رنگ والی خوشبو اس لیے مخصوص فرمائی کہ ان کے لیے پردہ فرض ہے، لہٰذا وہ لوگوں کو نظر نہیں آئے گی۔ خوشبو محسوس نہیں ہوگی، اس لیے لوگوں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہیں ہوگی جبکہ مرد کے لیے پردہ نہیں ہے، اس لیے اسے رنگ والی چیز سے روک دیا گیا۔ (4) اگر عورت اپنے خاوند کے گھر میں ہو، باہر نہ جائے اور گھر میں غیر محرم مردوں کی آمد کا سلسلہ بھی نہ ہو تو پھر اسے کچھ نہ کچھ اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ پر فتن دور ہے، سد ذریعہ کے طور پر اس سے محفوظ رہنا ہی بہتر ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5120