عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:”سود کھانے والا، کھلانے والا، اور اس کا لکھنے والا ۱؎ جب کہ وہ اسے جانتا ہو (کہ یہ حرام ہے) اور خوبصورتی کے لیے گودنے اور گودوانے والی عورتیں، صدقے کو روکنے والا اور ہجرت کے بعد لوٹ کر اعرابی (دیہاتی) ہو جانے والا ۲؎ یہ سب قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ملعون ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5105]
وضاحت: ۱؎: سود کھانا اور کھلانا تو اصل گناہ ہے، اور حساب کتاب گناہ میں تعاون کی قبیل سے ہے اس لیے وہ بھی حرام ہے اور موجب لعنت ہے۔ اسی طرح وہ کام جو اس حرام کام میں ممدو معاون ہوں موجب لعنت ہیں۔ ۲؎: یہ اس وقت کے تناظر میں تھا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر ان کی مدد کرنی واجب تھی اور مدینہ کے علاوہ مسلمانوں کا کوئی مرکزی بھی نہیں تھا، اگر دنیا میں کہیں اب بھی ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو دنیاوی منفعت کی خاطر مرکز اسلام کو چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہو جانے کا یہی حکم ہو گا، مگر اب ایسا کہاں؟۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، حارث الأعور ضعيف،. ولبعض الحديث شواهد صحيحة. انوار الصحيفه، صفحه نمبر 360
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5105
اردو حاشہ: (1) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سود کھانا اور کھلانا حرام ہے، نیز سود لینے اور دینے والے اور سود لکھنے والے ان سب پرلعنت کی گئی ہے، یعنی یہ سارے یعنی ہیں بشرطیکہ انہیں سود کی حرمت کا علم ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث مبارکہ زکاۃ و صدقات اپنے پاس روک رکھنے اور مستحق لوگوں کو نہ دینے کی حرمت بھی بتاتی ہے جبکہ زکاۃ کی ادائیگی فرض اور دین کی اساس وبنیاد ہے۔ (2)”سود لینے والا“ عربی میں سود کھانے والا کہا گیا ہے مگر مراد لینے والا ہے۔ کھائے یا کسی اور استعمال میں لائے کیونکہ سود کا اپنی ذات کے لیے استعمال حرام ہے چاہے کسی بھی صورت میں ہو۔ البتہ اگر کسی کے پاس اس کی رضا مندی کی بغیر سود کا مال آجائے تو وہ اسے فقراء میں تقسیم اور رفاہِ عام کے کاموں میں خرچ کرسکتا ہے کیونکہ مال ضائع کرنا جائز نہیں، البتہ اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ یہ مال حقیقتاً اس کا نہیں تھا، البتہ اس ےس فقراء کو فائدہ ہوجائے گا۔ (3)”لکھنے والا“ کیونکہ یہ شخص بھی کبیرہ گناہ میں معاون بن رہا ہے۔ (4)”جانتے بوجھتے“ یعنی متعلقہ افراد کو علم ہوکہ یہ سود کا معاملہ ہے۔ جہالت معاف ہے۔ (5)”باد یہ کو لوٹ جانے والا“ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے دور کے ساتھ خاص ہے کہ جس شخص نے ایک بار آپ کے دست مبارک پر ہجرت کی بیعت کرلی ہو، وہ دوبارہ اپنے اصلی علاقے میں اقامت اختیار نہیں کرسکتا ورنہ یہ ارتداد کے برابر گناہ ہوگا، الا یہ کہ خود رسول اللہ ﷺ اس کو اجازت فرما دیں جس طرح حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو اجازت دی تھی۔ آپ کے بعد کوئی ہجرت اس طرح لازم نہیں جس طرح نبی ﷺ کے زمانے مبارک میں تھی۔ البتہ اب بھی اگر کوئی شخص دین کی خاطر ہجرت کرے گا تو وہ بھی اپنے وطن (ہجرت گاہ) واپس نہیں جاسکتا۔ واللہ أعلم. (6)”حضرت محمد ﷺ کی زبانی“ یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ وہ قیامت کے دن لعنت میں ہوگا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5105