الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الزينة من السنن
کتاب: زیب و زینت اور آرائش کے احکام و مسائل
10. بَابُ : الذُّؤَابَةِ
10. باب: سر پر چوٹی رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5066
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ هُبَيْرَةَ بْنِ يَرِيمَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ:" عَلَى قِرَاءَةِ مَنْ تَأْمُرُونِّي أَقْرَأُ؟ , لَقَدْ قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعًا وَسَبْعِينَ سُورَةً، وَإِنَّ زَيْدًا لَصَاحِبُ ذُؤَابَتَيْنِ , يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم لوگ مجھے کس کی قرأت کے مطابق پڑھنے کے لیے کہتے ہو؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ستر سے زائد سورتیں پڑھیں، اس وقت زید (زید بن ثابت) کی دو چوٹیاں تھیں، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5066]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9592) (صحیح) (اس کے راوی ”ابواسحاق‘‘ اور ”اعمش‘‘ مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، مگر اگلی سند سے تقویف پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت: ۱؎: لمبے بال کو «ذوابہ» کہتے ہیں، نہ کہ عورتوں کی طرح بندھی ہوئی چوٹی کو، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس اثر نیز اگلی حدیث سے سر کے اتنے بڑے بالوں کا جواز ثابت ہوتا ہے، کیونکہ ان دونوں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم و ابن مسعود) نے اس پر اعتراض نہیں کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبے بالوں کی بجائے انہیں چھوٹے کرنے کو زیادہ پسند کیا، جیسا کہ حدیث نمبر ۵۰۶۹ میں صراحت ہے (نیز ملاحظہ ہو: فتح الباری: کتاب اللباس، باب الذوائب)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 5066 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5066  
اردو حاشہ:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ ہے کہ میں قدیم الاسلام ہوں۔ قرآن کا بڑا قاری ہوں جب کہ حضرت زید بن ثابت توکل کا بچہ ہے۔ یہ مجھ سے بڑا قاری کیسے ہوسکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قرآن جمع کرنے اور ترتیب دینے پر مامور فرمایا۔ انہوں نے بڑی جانفشانی سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید جمع کیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید قریش کے لہجے میں مرتب فرمایا۔ ان کو اس اہم کام پر مامور کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ نوجوان اور تیز فہم تھے۔ قرآن مجید کے کاتب تھے۔ رسول اللہ ﷺ اور حضرت جبریل امین علیہ السلام  کے درمیان ہوا تھا۔ گویا کہ وہ ناسخ منسوخ، قرآنی لہجہ اور ترتیب سور کے سب سے بڑے عالم اور واقف تھے۔ پھر ان کا حافظہ بھی قوی تھا، بخلاف اس کے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ابتدائی دور میں قرآن مجید پڑھا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں بوڑھے ہو چکے تھے۔ ظاہر ہے کہ بوڑھے آدمی کی یاد داشت جوان آدمی کے برابر نہیں ہو سکتی مگر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی بات پر اڑے رہے اور تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ نسخۂ قرآن کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ ان کی فرو گزاشت تھی مگر ان کی جلالت، قدر اوربزرگی کی وجہ سے انہیں معذور قرار دیا گیا اور ان پر سختی نہ کی گئی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5066