عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حدود کو میرے پاس آنے سے پہلے معاف کر دیا کرو، کیونکہ جس حد کا مقدمہ میرے پاس آیا، اس میں حد لازم ہو گئی“۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4889]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4889
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث صریح اور واضح دلیل ہے کہ حاکم وقت اور عدالت کے سامنے پیش ہونے اور ملزم کو پیش کرنے سے پہلے باہم حدود میں معاف کرنا مستحب اور پسندیدہ عمل ہے۔ بالخصوص اگر جرم کرنے والا کوئی ایسا عزت دار اور معاشرے کا معزز فرد ہو جو نہ تو عادی مجرم ہو اور نہ اپنے کیے پر فخر کا اظہار کرے بلکہ اپنی غلطی پر نادم اور شرمندہ ہو تو اسے معاف کردینا ہی بہتر اور افضل ہے۔ (2) عینی شاہدین یعنی موقع کے گواہوں کے لیے یہ قطعا ضروری نہیں کہ وہ ضرور عدالت میں جا کر جو کچھ انہوں نے دیکھا ہے اس کی بابت گواہی دیں بلکہ ایک مسلمان کے عیب کی پردہ پوشی مستحب اور شرعا پسندیدہ عمل ہے۔ اس کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں۔ ہاں اگر معاملہ عدالت میں یا حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر حق سچ کی گواہی دینا ضروری ہوتا ہے۔ اس صورت میں حق کی گواہی چھپانا کبیرہ گناہ ہے۔ (3)”حدود معاف کرو“ مثلا: چور کو عدالت میں پیش کیے بغیر چھوڑ دو یا زانی کے خلاف گواہ عدالت میں نہ جائیں یا شرابی کا کیس عدالت میں نہ لے جایا جائے۔ ان صورتوں میں عدالت زبردستی کیس اپنے ہاتھ میں نہیں لے گی۔ لیکن جو کیس عدالت میں آگیا ملزم نے اعتراف کرلیا یا گواہوں نے گواہی دے دی یعنی جرم ثابت ہو گیا تو پھر عدالت کےلیے حد قائم کرنا لازم ہوگا۔ وہ معاف نہیں کرسکتی۔ عدالت میں جرم کے ثبوت کے بعد متعلقہ اشخاص بھی معافی نہیں دے سکتے۔ البتہ قصاص کا مسئلہ اس ضابطے سے مستثنیٰ ہے۔ قتل کا مقدمہ عدالت میں چلا جائے گواہ بھگت جائیں یا ملزم اعتراف کر لے حتیٰ کہ عدالت سزائے موت بھی سنا دے تب بھی مقتول کے ورثاء معاف کرسکتے ہیں حتیٰ کہ پھانسی کا پھندہ قاتل کے گلے میں پڑا ہو تب بھی اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن عدالت کسی بھی مرحلے پر یا حاکم وقت کسی بھی اپیل پر قاتل کو معاف نہیں کرسکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4889