عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ صفوان رضی اللہ عنہ مسجد میں سو رہے تھے، ان کی چادر ان کے سر کے نیچے تھی، کسی نے اسے چرایا تو وہ اٹھ گئے، اتنے میں آدمی جا چکا تھا، انہوں نے اسے پا لیا اور اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا، صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میری چادر اس قیمت کی نہ تھی کہ کسی شخص کا ہاتھ کاٹا جائے ۱؎۔ آپ نے فرمایا: ”تو ہمارے پاس لانے سے پہلے ہی ایسا کیوں نہ کر لیا“۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اشعث ضعیف ہیں۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4886]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5985) (صحیح) (اشعث ضعیف راوی ہیں، لیکن پچھلی سند سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یہ ان کا اپنا ظن و گمان تھا ورنہ چادر کی قیمت چوری کے نصاب کی حد سے متجاوز تھی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4886
اردو حاشہ: ”اتنی قیمتی“ قیمتی تو تھی یعنی چوری کے نصاب کو پہنچ جاتی تھی اسی لیے تو رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا مگر ان کا خیال تھا کہ ہاتھ تو بہت قیمتی ہے۔ اس کی دیت پچاس اونٹ ہے۔ اسے تیس درہم کی چوری کے عوض نہیں کاٹنا چاہیے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ یہ ہاتھ اس وقت قیمتی ہے جب بے گناہ ہو۔ جب اس سے چوری جیسا گناہ کرلیا گیا تو اب یہ قیمتی نہ رہا۔ اب یہ چند درہم کے بدلے کاٹ دیا جائے گا۔ چوری کس قدر ذلیل کام ہے کہ پچاس اونٹ کی قیمت رکھنے والی چیز کو تین یا زیادہ سے زیادہ دس درہم کی بنا دیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4886