ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے، اچانک مروان کا بیٹا ان کے آگے سے گزر رہا تھا، آپ نے اسے روکا، وہ نہیں لوٹا تو آپ نے اسے مارا، بچہ روتا ہوا نکلا اور مروان کے پاس آیا اور انہیں یہ بات بتائی، مروان نے ابو سعید خدری سے کہا: آپ نے اپنے بھتیجے کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا: میں نے اسے نہیں، بلکہ شیطان کو مارا ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم میں سے جب کوئی نماز میں ہو اور کوئی انسان سامنے سے گزرنے کا ارادہ کرے تو اسے طاقت بھر روکے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لیے کہ وہ شیطان ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4866]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 4183)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلاة 100 (509)، وبدء الخلق 11 (3274)، صحیح مسلم/الصلاة48(505)، سنن ابی داود/الصلاة108(700)، سنن ابن ماجہ/الإقامة39(954)، موطا امام مالک/السفر 10 (33)، مسند احمد (3/34)، 43-44، 49، 63 (صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4866
اردو حاشہ: (1)”اس سے لڑے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ممکن حد تک سامنے سے گزرنے والے شخص کو روکے، لیکن اس حد تک نہ جائے کہ اس کی اپنی نماز ہی باطل ہو جائے کیونکہ نماز کی حفاظت کے لیے تو گزرنے والے کو روک رہا ہے۔ اگر خود ہی نماز خراب کر لی تو اس کو روکنے کا فائدہ؟ اس کی صورت یہ ہوگی کہ سامنے سے گزرنے والے شخص کو ہاتھ سے روکے، اگر گزرنے والا شخص نہ رکے بلکہ سامنے سے گزرنے پر ہی مصر رہے تو اس کے سینے میں دھکا دے، یہ نہیں کہ آستینیں چڑھا کر اس سے کشتی شروع کر دے اور نماز چھوڑ کر مار کٹائی پر اتر آئے کیونکہ اس سے اس کی اپنی نماز باطل ہو جائے گی۔ (2) امام صاحب نے اس سے استدلال فرمایا ہے کہ وہ خود بھی سزا دے سکتا ہے۔ حاکم کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں، حالانکہ کسی کو دھکا دینا یا معمولی چپت رسید کرنا نہ تو سزا کے زمرے میں آتا ہے نہ قصاص کے۔ اس سے باب پر استدلال قوی نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ معمولی سی کارروائی از خود بھی کر سکتا ہے جو عدالت کے اختیار میں نہیں آتی لیکن جو امور عدالتی اختیار کے تحت ہیں اور جن پر فوج داری جرم کا اطلاق ہوتا ہے، ان کا اختیار افراد کو نہیں، مثلاً: کسی کو اس طرح مارنا کہ وہ زخمی ہو جائے یا اس کی کوئی ہڈی ٹوٹ جائے یا کوئی عضو ضائع ہو جائے یا -اللہ نہ کرے- وہ مر ہی جائے۔ ایسی صورت میں وہ خود مجرم ہوگا اور سزا پائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4866
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 184
´نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے` «. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا صلى احدكم إلى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه، فليدفعه فإن ابى فليقاتله، فإنما هو شيطان . . .» ”. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے اور کوئی آدمی اس کے سامنے (یعنی سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ) سے گزرنے لگے تو (نمازی کو چاہیئے کہ) وہ اسے روکنے کی کوشش کرے اگر وہ (گزرنے والا پھر بھی) باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان (بصورت انسان) ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 184]
� لغوی تشریح: «يَجْتَازُ» گزرتا ہے۔ «بَيْنَ يَدَيْهِ» اس کے آگے سے، سامنے سے، یعنی نمازی اور قائم شدہ سترے کی درمیانی جگہ سے گزرتا ہے۔ بظاہر دونوں حکم، یعنی دفع کرنا اور لڑنا وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واجب نہیں، مندوب ہیں۔ «فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ» اس کا یہ عمل شیطان کے اکسانے سے ہے۔ «اَلْقَرِينَ» ساتھی، مراد وہ شیطان ہے جو ہر لمحہ انسان کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ شیطان اس گزرنے والے کو اس کام پر اکساتا اور ابھارتا رہتا ہے تاکہ نمازی حصول برکت اور رحمت سے محروم رہ جائے۔
فوائد و مسائل: ➊ نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے اور گزرنے والے کو روکنا واجب ہے یا مستحب و مندوب۔ ➋ ظاہر یہ کے نزدیک تو زور اور شدت کے ساتھ اسے روکنا واجب ہے۔ انہوں نے حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ باقی سب کے نزدیک یہ مستحب ہے۔ ➌ نمازی، گزرنے والے کو اشارے سے روکنے کی کوشش کرے، اس کے باوجود اگر وہ گزرنے پر بضد ہو تو ذرا سختی سے دھکا دے کر روکے، پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے مارے۔ ➍ یہ اسی صورت میں ہے جبکہ نمازی نے اپنے سامنے سترہ قائم کر رکھا ہو۔ اگر سترہ قائم نہیں تو پھر اس نمازی کا قصور ہے۔ ➎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں اتنے عمل سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 184
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 131
´نمازی اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے` «. . . عن ابى سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان احدكم يصلي فلا يدع احدا يمر بين يديه وليدراه ما استطاع، فإن ابى فليقاتله، فإنما هو شيطان . . .» ”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھے تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، جتنی استطاعت ہو اسے ہٹائے پھر اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ کرے کیونکہ یہ شیطان ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 131]
[وأخرجه مسلم 505، من حديث ما لك به] تفقه: ➊ نمازی کے آگے سترہ رکھنا واجب ہے یا سنت؟ اس میں علماءکا اختلاف ہے اور ان یہی ہے کہ سترہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے [التمهيد 193/4] ● مسند البزار میں حدیث ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سترے کے نماز پڑھی ہے۔ [شرح صحيح بخاري لابن بطال ج2 ص175] اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔ ● معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سترے کے ساتھ نماز پڑھنے یا سترے کے بغیر نماز نہ پڑھنے کا علم ہے وہ استحباب پرمحمول ہیں۔ ● عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 278/1 ح 2871 وسندہ صحیح] ➋ اگر کوئی شخص سترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو سترے کے اندر سے گزرنا کبیرہ گناہ ہے۔ ➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ رات کو جب نماز میں سترہ نہ ملتا تو وہ کسی آدی کو ستر ہ بنا لیتے اور فرماتے: میری طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھ جاؤ۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 279/1 ح 2878 وسنده صحيح] ➍ اس پراجماع ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ➎ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کسی نمازی کے سامنے سے گزرتے اور نہ کسی نمازی کو گزرنے دیتے تھے۔ [الموطأ 155/1 ح 365 وسنده صحيح] ➏ نیز دیکھئے [الموطأ امام مالك ح 422، البخاري 510، ومسلم 507] ➐ مسجد میں سترہ رکھنا جائز ہے۔ مشہورتا بعی اور ثقہ امام یحیی بن ابی کثیر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا، آپ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 277/1 ح 2853 وسنده صحيح] ➑ مشہور تابعی امام شعبی رحمہ الله اپنا کوڑا (زمین پر) ڈال کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 278/1 ح 2864 وسنده حسن] معلوم ہوا کہ سترے کی بلندی کے لئے کوئی حد ضروری نہیں ہے تا ہم مرفوع احادیث کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ سواری کے کجاوے جتنا (یعنی کم از کم ایک فٹ بلند) سترہ ہو۔ واللہ اعلم ➒ نماز میں ضروری عمل جائز ہے اگرچہ عمل کثیر ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ شریعت میں اس کی دلیل ہو۔ ➓ نماز میں خشوع کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا اس کو باقی رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 175
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 700
´نمازی کو حکم ہے کہ وہ اپنے سامنے سے گزرنے والے کو روکے۔` ابوصالح کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا، وہ تم سے بیان کرتا ہوں: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مروان کے پاس گئے، تو عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو (جسے وہ لوگوں کے لیے سترہ بنائے) سامنے کر کے نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ سینہ پر دھکا دے کر اسے ہٹا دے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے (یعنی سختی سے دفع کرے) کیونکہ وہ شیطان ہے۔“ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان ثوری کا بیان ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور کوئی آدمی میرے سامنے سے اتراتے ہوئے گزرتا ہے تو میں اسے روک دیتا ہوں، اور کوئی ضعیف العمر کمزور گزرتا ہے تو اسے نہیں روکتا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 700]
700۔ اردو حاشیہ: لڑائی کرنے کا مطلب، ہاتھ کے ذریعے سے گزرنے والے کو زور سے روکنا ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ ایک تابعی ہیں، یہ ان کا عمل ہے، اس عمل کی ان کے نزدیک کیا وجہ تھی؟ وہ انہوں نے بیان نہیں کی، اس لیے حدیث کی رُو سے ہر گزرنے والے کو ہاتھ کے ذریعے سے روکنا چاہیے، چاہے کوئی تکبر سے گزرنے والا ہو یا وہ ضعیف ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 700
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 758
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اگر وہ نہ مانے تو اسے سختی سے دفع کرے۔“[سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 758]
758 ۔ اردو حاشیہ: نما ز میں اپنے سامنے سترہ ضرور رکھنا چاہیے۔ سترہ نہ رکھنے کی صورت میں اگر کوئی آگے سے گزرے تو گزرنے والا اور نمازی دونوں گناہ گار ہوں گے اور اگر سترہ ہو تو آگے سے گزرا جا سکتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کرے تو نمازی کا فرض ہے کہ اسے روکے۔ باز نہ آئے تو اسے دھکا بھی دے سکتا ہے، البتہ دھیگاعشتی پر نہ آئے کہ یہ نماز کے منافی ہے۔ بعض حضرات نے ظاہر الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے دھینگاعشتی کو بھی جائز قرار دیا ہے گر یاد رہنا چاہیے کہ اس قسم کے الفاظ کی دلالت موقع محل کی محتاج ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 758
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث954
´نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرنے لگے اس کو ممکن حد تک روکنے کا بیان۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی جانب پڑھے، اور اس سے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، اگر کوئی گزرنا چاہے تو اس سے لڑے ۱؎ کیونکہ وہ شیطان ہے“۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 954]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر نمازی ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں اسے خیال ہوکہ کوئی آگے سے گزر سکتا ہے تو اسے سترہ ضرور رکھ لینا چاہیے۔
(2) دیوار یا ستون بھی سترہ بن سکتا ہے۔
(3) نمازی اور سترے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ورنہ سترے کا مقصد فوت ہوجائےگا۔
(4) اگر کوئی شخص نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنا چاہے تو اسے اشارے سے روکنا چاہیے نہ رکے تو سختی سے روکنا چاہیے۔ اگردھکا دینا پڑے تو اس طرح ہی روک دے، لڑنے، سے یہی مراد ہے۔
(5) گزرنے والے کو شیطان کہنے کا مطلب یہ ہے كه وہ شیطان کے بہکانے کی وجہ سے یہ کام کر رہا ہے یا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ شیطان ہے جو اسے گزرنے پرمجبور کر رہا ہے جیسے کہ اگلی روایت میں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 954
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1128
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھا رہا ہو تو کسی کو آگے سے نہ گزرنے دے، جہاں تک ممکن ہو، اس کو دفع کرے (ہٹائے) اگر وہ نہ مانے (باز نہ آئے) تو اس سے لڑے (زور سے دھکا دے) کیونکہ وہ شیطان ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1128]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) وَلْيَدْ رَأْهُ: اس کو(اشارہ یا ہاتھ ہے) دفع کرے، روکے یا ہٹائے۔ (2) اِنَّمَاهُوَ شَيْطَان: وہ سرکش اور باغی ہے، اور شیطان کے پیچھے لگ کر اچھی بات کو قبول نہیں کر رہا۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے اگر کوئی انسان نمازی سے آگے گزرنے کی کوشش کرے تو اس کو روکا جائے گا۔ اگر وہ نرمی سے باز نہ آئے تو پھر زور اور طاقت سے روکا جائے گا لیکن یہ تبھی جائز ہے جب نماز نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو اور اس کے باوجود وہ بلا وجہ نمازی کے آگے سے گزرے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1128
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1129
حضرت ابن ہلال رحمتہ اللہ علیہ (یعنی حمید) بیان کرتے ہیں کہ اسی دوران میں اور میرا ساتھی، ایک حدیث کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ابو صالح سمان نے کہا، میں تمہیں ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہوئی حدیث اور ان کا عمل بتاتا ہوں، میں ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ جمعہ کے دن کسی چیز کی آڑ میں نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں ابو معیط کے خاندان کا ایک نوجوان آیا اور اس نے ان کے آگے سے گزرنا چاہا تو انہوں نے اس کے سینہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1129]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) نَتَذَاكَرُ: کسی مسئلہ پر بات چیت، اور گفتگو کرنا۔ (2) مَسَاغ: گزر گاہ، راستہ۔ (3) مثل: ثاء پر زبر اور پیش دونوں آ سکتے ہیں، سیدھا کھڑا ہو گیا۔ (4) نَالَ مِن أَبِي سَعِيد: ابو سعید کو برا بھلا کہا، ان کی عزت وآبرو پر حملہ کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1129
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 509
509. ابوصالح سمان فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا کہ وہ جمعۃ المبارک کے دن کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے کہ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک نوجوان نے ان کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی۔ حضرت ابوسعید نے اس کو سینے سے دھکیل کر روکنا چاہا۔ نوجوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آگے سے گزرنے کے علاوہ اسے کوئی راستہ نہ ملا۔ وہ پھر اس طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا تو حضرت ابوسعید خدری ؓ نے اسے پہلے سے زیادہ زوردار دھکا دیا۔ اس نے اس پر حضرت ابوسعید خدری ؓ کو برا بھلا کہا۔ بعد ازاں وہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور ابوسعید ؓ سے جو معاملہ پیش آیا تھا اس کی شکایت کی۔ حضرت ابوسعید ؓ بھی اس کے پیچھے مروان کے پاس پہنچ گئے۔ مروان نے کہا: اے ابوسعید! تمہارا اور تمہارے بھتیجے کا کیا معاملہ ہے؟ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ”تم میں سے کوئی اگر کسی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:509]
حدیث حاشیہ: نمازی کے آگے سے گزرنا سخت ترین گناہ ہے۔ اگرگزرنے والا قصداً یہ حرکت کررہا ہے تووہ یقیناً شیطان ہے۔ جوخدا اور بندے کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔ ایسے گزرنے والے کو حتی الامکان روکنا چاہیے حتیٰ کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی طرح ضرورت ہو تو اسے دھکادے کر بھی باز رکھا جائے، بعض لوگ ارشاد نبوی فلیقاتله کو مبالغہ پر محمول کرتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 509
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:509
509. ابوصالح سمان فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا کہ وہ جمعۃ المبارک کے دن کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے کہ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک نوجوان نے ان کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی۔ حضرت ابوسعید نے اس کو سینے سے دھکیل کر روکنا چاہا۔ نوجوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آگے سے گزرنے کے علاوہ اسے کوئی راستہ نہ ملا۔ وہ پھر اس طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا تو حضرت ابوسعید خدری ؓ نے اسے پہلے سے زیادہ زوردار دھکا دیا۔ اس نے اس پر حضرت ابوسعید خدری ؓ کو برا بھلا کہا۔ بعد ازاں وہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور ابوسعید ؓ سے جو معاملہ پیش آیا تھا اس کی شکایت کی۔ حضرت ابوسعید ؓ بھی اس کے پیچھے مروان کے پاس پہنچ گئے۔ مروان نے کہا: اے ابوسعید! تمہارا اور تمہارے بھتیجے کا کیا معاملہ ہے؟ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ”تم میں سے کوئی اگر کسی چیز۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:509]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک صورت معاملہ یوں ہے کہ اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر کر اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان نماز کی وجہ سے قائم ہوا ہے تو نمازی کے لیے اس تعلق کو قائم رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے، یعنی اسے نرمی سے متنبہ کرے۔ اگرباز نہ آئے تو سختی سے روکنے کی اجازت ہے۔ اگروہ اشارہ نہ مانے تو دھکا دے کر اسے روکا جائے، لیکن اس روکنے میں دھکم پیل اور مارپیٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے، کیونکہ ایسے اعمال نماز کے لیے باعث فساد ہیں۔ گزرنے والے کو روکنا تو نماز کی حفاظت کے لیے تھا، اگر اسے اس انداز سے روکا گیا کہ نماز ہی خراب ہوگئی تو”گناہ لازم اور نیکی برباد“والی صورت پیدا ہوجائے گی۔ امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اس حدیث کو بیان کیا ہے تو مطلق طور پر روکنے کا بیان ہے، خواہ نمازی نے سترہ رکھا ہو یا اس کے بغیر نماز پڑھ رہا ہو۔ الفاظ یہ ہیں: نمازی کو چاہیے کہ وہ گزرنے والے کو روکے، اگروہ نہ رکے تو اس کے ساتھ مزاحمت کرے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3274) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس نے ربط خیال اور تحفظ نماز کا بندوبست نہ کر کے خود کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے، بالخصوص جبکہ وہ عام گزرگاہ میں نماز پڑھ رہا ہو۔ مصنف عبدالرزاق میں سترے اور غیر سترے والی نماز کا فرق بیان کیا گیا ہے، اس بنا پر اگر کوئی نمازی سترے کے بغیر نمازپڑھتا ہے یا سترہ رکھنے کے باوجود اس سے دور کھڑا ہوتا ہے تو ایسی حالت میں آگے سے گزرنا گناہ نہیں اور نہ گزرنے والے کو روکنا ہی جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ ایسی حالت میں بھی نمازی کے سامنے سے نہ گزرا جائے۔ (فتح الباري: 753/1) لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ احادیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے کسی بھی حالت میں نہ گزرا جائے اور اگر کوئی گزرتا ہے تو اسے ر وکاجائے۔ ہاں! اگر گزرنے والا مجبور ہو کہ اسے اور کوئی راستہ نہیں ملتا اور وہ انتظار بھی نہیں کرسکتا تو امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی نمازی سے اتنا دور ہے کہ اسے عرف میں اس کے آگے سے گزرنے والا نہیں کہا جاسکتا تو ایسی صورت میں بھی گزرنا جائز ہے، گویا وہ سترے کے پیچھے سے گزر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن دقیق العید ؒ نے کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے جسے ہم آئندہ بیان کریں گے۔ 2۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ گزرنے والے کو روکنا ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اسے روک کر اپنی نماز کا تحفظ کرے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں، لیکن اہل ظاہر نے اسے واجب کہا ہے۔ شاید امام نووی ؒ ان کے اختلاف کو کسی خاطر میں نہیں لاتے یا انھوں نے اہل ظاہر کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ گزرنے والے کو شیطان اس لے کہا گیا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مناجات کے تعلق کو ختم کردے جو شیطان کا کام ہے۔ (فتح الباري: 754/1) 3۔ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کو پابند کیا ہے کہ وہ آگے سے کسی کو نہ گزرنے دے۔ یہ حکم نماز کی حفاظت کے لیے ہے یا گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے؟ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ اہتمام گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اپنی نماز کے تحفظ کے لیے اسے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے، کیونکہ نمازی کے لیے اپنی نماز کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ دوسرے کو گناہوں سے باز رکھنا اپنی نماز کی حفاظت سے زیادہ اہم نہیں، کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ کسی کا نمازی کے آگے سے گزرنا اس قدر منحوس ہے کہ اس سے نصف اجر کی کمی ہوجاتی ہے، نیز حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر نمازی کو پتہ چل جائے کہ اس کے آگے سے گزرنا کس قدر ثواب کی کمی کا باعث ہے تو کبھی سترے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔ یہ دونوں آثار اگرچہ موقوف ہیں، تاہم انھیں مرفوع کہا جائے گا، کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، تاہم ان کا تقاضا ہے کہ نمازی کا یہ اہتمام اپنی نماز کی حفاظت کے لیے ہے، گزرنے ولے کو گناہ سے بچانا اس سے مقصود نہیں۔ (فتح الباري: 755/1) ممکن ہے ہر دو مقاصد کے لیے نمازی کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ سترہ رکھ کر نماز پڑھے اور گزرنے والے کو متنبہ کرے تاکہ اس کی نماز بھی محفوظ رہے اور گزرنے ولا بھی گناہ سے بچ جائے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 509
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3274
3274. حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اس کے آگے سے گزرے تو اس کو گزرنے سے منع کرے۔ اگر وہ انکار کرے تو وہ دوبارہ روکے۔ اگر پھر بھی انکار کرے تو اب اس کے ساتھ لڑ پڑےکیونکہ بلاشبہ وہ شیطان ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3274]
حدیث حاشیہ: 1۔ نماز ی کا فرض ہے کہ وہ اپنے سامنے سترہ رکھ کر نماز پڑھے اگر اس کے باوجود بھی کوئی اس کے آگے سے گزرتا ہے تو اسے روکنا چاہیے چنانچہ اسی روایت کے ایک طریق میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے اگر کوئی کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کرنماز پڑھے پھر کوئی اس کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کرے تو اسے روکے۔ اگر وہ نہ رکے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔ “(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 509) لڑنے سے مراد ہتھیار سے قتل کرنا نہیں بلکہ گزرنے والے کو سختی سے روکنا ہے ا س سےثابت ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا شیطانی فعل ہے کیونکہ اس سے نمازی کی نماز خراب ہوگی۔ 2۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے شیطانی کردار کو ثابت کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3274