الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
17. بَابُ : صَلاَةِ الْعَصْرِ فِي السَّفَرِ
17. باب: سفر میں عصر کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 480
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ زُغْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّ نَوْفَلَ بْنَ مُعَاوِيَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مِنَ الصَّلَاةِ صَلَاةٌ مَنْ فَاتَتْهُ فَكَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" هِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ". خَالَفَهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ.
نوفل بن معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: نمازوں میں ایک نماز ایسی ہے کہ جس کی وہ فوت ہو جائے گویا اس کا گھربار لٹ گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: یہ عصر کی نماز ہے۔ محمد بن اسحاق نے (آنے والی روایت میں) لیث کی مخالفت کی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 480]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 479 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں بھی سند اور متن دونوں میں مخالفت ہے، سند میں مخالفت اس طرح ہے کہ محمد بن اسحاق کی روایت میں ہے کہ عراک نے نوفل بن معاویہ سے سنا ہے، اور لیث کی روایت میں ہے کہ عراک کو یہ بات پہنچی ہے کہ نوفل بن معاویہ نے کہا ہے، اور متن میں اس طرح کہ محمد بن اسحاق نے اسے موقوف قرار دیا ہے، اور لیث نے مرفوع قرار دیا ہے، اور وقف اور رفع میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ صحابی کبھی مرفوع روایت کو بصورت فتوی بیان کرتا ہے، اور اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرتا، اور کبھی اسے مرفوعاً روایت کرتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 480 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 480  
480 ۔ اردو حاشیہ: محمد بن اسحاق اور لیث دونوں یزید بن ابی حبیب کے شاگرد ہیں۔ دونوں سند کے بیان میں بھی مختلف ہیں اور متن کے بیان میں بھی۔ سند کا اختلاف تو یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت میں عراک کے حضرت نوفل سے سماع کی صراحت نہیں جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت میں اسماع کی صراحت ہے۔ تطبیق سابقہ وضاحت میں گزر چکی ہے۔ متن کا اختلاف یہ ہے کہ حضرت لیث کی روایت مرفوع ہے جبکہ محمد بن اسحاق کی روایت موقوف، یعنی صحابی کا قول ہے۔ ویسے ان میں تعارض نہیں ہے کیونکہ اصلاً تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہی ہے۔ صحابی نے بھی یہی فتویٰ دیا۔ ظاہر ہے ایسے عام ہوتا ہے۔ اس سے روایت کے مرفوع ہونے میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 480