27. باب: آیت کریمہ: ”جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے“ (البقرہ: ۱۷۸) کی تفسیر۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں قصاص کا حکم تھا، ان میں دیت دینے کا حکم نہ تھا، تو اللہ تعالیٰ نے «كتب عليكم القصاص في القتلى الحر بالحر والعبد بالعبد والأنثى بالأنثى»”تم پر قصاص فرض کیا گیا ان لوگوں کا جو مارے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام، عورت کے بدلے عورت“ سے «فمن عفي له من أخيه شىء فاتباع بالمعروف وأداء إليه بإحسان»”جس کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جائے تو معاف کرنے والا دستور کی پیروی کرے اور جس کو معاف کیا گیا وہ اچھی طرح دیت ادا کرے۔ (تمہارے رب کی طرف سے) یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے گا، اسے درد ناک عذاب ہو گا“(البقرہ: ۱۷۸) تک نازل فرمایا، تو عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں دیت قبول کر لے اور اتباع بالمعروف یہ ہے کہ وہ دستور کی پابندی کرے، اور «وأداء إليه بإحسان» یہ ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ادا کرے، «ذلك تخفيف من ربكم ورحمة»”یہ تخفیف ہے تمہارے رب کی طرف سے اور رحمت ہے“ اس لیے کہ تم سے پہلے کے لوگوں پر صرف قصاص فرض تھا، دیت کا حکم نہیں تھا“۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4785]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4785
اردو حاشہ: (1)”برابر کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔“ یعنی قصاص لینا جائز ہے۔ مشروع ہے، واجب اور ضروری نہیں بلکہ عام حالات میں معافی بہتر ہے۔ (2)”آزاد کے بدلے وہی آزاد (قاتل)“ دور جاہلیت میں بعض قوی قبائل اپنے غلام کو دوسروں کے آزاد اور اپنی عورت کو دوسروں کے مردوں کے برابر سمجھتے تھے۔ اپنے ایک آزاد کے بدلے میں وہ دوسروں کے دس، دس آزاد مار دیتے تھے۔ شریعت نے فرمایا: قاتل ہی قتل کیا جائے گا آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا مرد، ایک ہو یا زائد۔ بعض حضرات نے معنیٰ کیے ہیں: ”آزاد کے بدلے آزاد قتل کیا جائے گا، غلام کے بدلے غلام“ حالانکہ یہ معنیٰ غلط ہیں۔ مقتول کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے گا نہ کہ کوئی آزاد یا غلام۔ (3)”کچھ معافی“ یعنی قصاص معاف ہو جائے، خواہ سب اولیاء معاف کر دیں یا ایک ولی معاف کر دے۔ ایسی صورت میں قصاص نہیں، دیت ہوگی۔ (4)”اچھے طریقے سے“ جب ولی نے قصاص معاف کیا ہے تو وہ دیت لینے میں بھی احسان کرے کہ قسطوں میں لے۔ یکمشت ادائیگی کی ضد نہ کرے الا یہ کہ قاتل آسانی سے یکمشت ادا کر سکتا ہو۔ اسی طرح قاتل کو بھی احسان کی قدر کرتے ہوئے تندہی سے ادائیگی کرنی چاہیے اور مقتول کے اولیاء کو پریشان نہیں کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4785