عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ کے چھوٹے بیٹے کا خیبر کے دروازوں کے پاس قتل ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو گواہ لاؤ کہ کس نے قتل کیا ہے، میں اسے اس کی رسی سمیت تمہارے حوالے کروں گا“، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہمیں گواہ کہاں سے ملیں گے؟ وہ تو انہیں کے دروازے پر قتل ہوا ہے، آپ نے فرمایا: ”تو پھر تمہیں پچاس قسمیں کھانی ہوں گی“، وہ بولے: اللہ کے رسول! جسے میں نہیں جانتا اس پر قسم کیوں کر کھاؤں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو تم ان سے پچاس قسمیں لے لو“، وہ بولے: اللہ کے رسول! ہم ان سے قسمیں کیسے لے سکتے ہیں وہ تو یہودی ہیں، تو آپ نے اس کی دیت یہودیوں پر تقسیم کی اور آدھی دیت دے کر ان کی مدد کی۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4724]
وضاحت: ۱؎: امام نسائی نے اس روایت پر نقد یہ کہہ کر کیا کہ عمرو بن شعیب نے ان رواة کی مخالفت کی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اوپر گزری روایتوں سے اس روایت میں تین جگہ مخالفت ہے: اس میں مقتول کا نام عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ ہے، اور مدعی سے قسم سے پہلے گواہ پیش کرنے کی بات ہے،، نیز اس میں یہ ہے کہ آدھی دیت یہودیوں پر مقرر کی، دوسری شق کی تائید کہیں نہ کہیں سے ہو جاتی ہے لیکن بقیہ دو باتیں بالکل شاذ ہیں۔ اس حدیث کے راوی عبید اللہ بن اخنس، بقول ابن حبان: روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔
تحلف خمسين قسامة قال يا رسول الله وكيف أحلف على ما لا أعلم فقال رسول الله فنستحلف منهم خمسين قسامة فقال يا رسول الله كيف نستحلفهم وهم اليهود فقسم رسول الله ديته عليهم وأعانهم بنصفها
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4724
اردو حاشہ: محقق کتاب نے اس روایت کی سند کو حسن قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ یہ روایت شاذ (ضعیف کی ایک قسم) ہے۔ مزید سابقہ حدیث کی وضاحت ملاحظہ فرمائیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4724