الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب القسامة والقود والديات
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
4. بَابُ : ذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ سَهْلٍ فِيهِ
4. باب: اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 4723
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ زَعَمَ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهُ: سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ , أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، قَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، فَانْطَلَقُوا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، انْطَلَقْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَوَجَدْنَا أَحَدَنَا قَتِيلًا، رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكُبْرَ الْكُبْرَ"، فَقَالَ لَهُمْ:" تَأْتُونَ بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ؟"، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ:" فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ"، قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، وَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبْطُلَ دَمُهُ فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ، خَالَفَهُمْ عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ.
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انہیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انہوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو ۱؎، پھر آپ نے ان سے فرمایا: تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہو گا، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو وہ قسم کھائیں گے، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قسمیں منظور نہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گراں گزرا کہ ان کا خون بیکار جائے، تو آپ نے انہیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) عمرو بن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4723]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «انظر حدیث رقم: 4714 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی (عبدالرحمٰن مقتول کے بھائی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہیئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔ ۲؎: عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

   صحيح البخاريالكبر الكبر تأتون بالبينة على من قتله قالوا ما لنا بينة قال فيحلفون قالوا لا نرضى بأيمان اليهود فكره رسول الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   صحيح البخاريتحلفون وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم قالوا وكيف نحلف ولم نشهد ولم نر قال فتبريكم يهود بخمسين فقالوا كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله النبي من عنده
   صحيح البخاريتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال أفتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فوداه رسول
   صحيح مسلمتحلفون خمسين يمينا وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم قالوا يا رسول الله ما شهدنا ولا حضرنا فزعم أنه قال فتبرئكم يهود بخمسين
   صحيح مسلمتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فواداه رسول الله من عنده فبعث إليهم رسول الله مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن أبي داودوداه بمائة من إبل الصدقة
   سنن أبي داودتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا مسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن أبي داودتأتوني بالبينة على من قتل هذا قالوا ما لنا بينة قال فيحلفون لكم قالوا لا نرضى بأيمان اليهود فكره نبي الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   سنن النسائى الصغرىتقسمون خمسين يمينا أن اليهود قتلته قالوا وكيف نقسم على ما لم نر قال فتبرئكم اليهود بخمسين أنهم لم يقتلوه قالوا وكيف نرضى بأيمانهم وهم مشركون فوداه رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرىيحلفون لكم قالوا لا نرضى بأيمان اليهود وكره رسول الله أن يبطل دمه فوداه مائة من إبل الصدقة
   سنن النسائى الصغرىتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا مسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم بمائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن النسائى الصغرىتحلفون بخمسين يمينا منكم وتستحقون قاتلكم أو صاحبكم فقالوا يا رسول الله كيف نحلف ولم نشهد ولم نر فقال أتبرئكم يهود بخمسين فقالوا يا رسول الله كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرىتحلفون وتستحقون دم صاحبكم قالوا لا قال فتحلف لكم يهود قالوا ليسوا بمسلمين فوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم بمائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   سنن النسائى الصغرىتحلفون بخمسين يمينا منكم فتستحقون دم صاحبكم أو قاتلكم قالوا يا رسول الله كيف نحلف ولم نشهد ولم نر قال تبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا يا رسول الله كيف نأخذ أيمان قوم كفار فعقله رسول الله من عنده
   سنن النسائى الصغرىتحلفون خمسين يمينا فتستحقون قاتلكم قالوا كيف نحلف ولم نشهد ولم نحضر فقال رسول الله فتبرئكم يهود بخمسين يمينا قالوا يا رسول الله كيف نقبل أيمان قوم كفار قال فوداه
   سنن ابن ماجهوداه رسول الله من عنده فبعث إليهم رسول الله مائة ناقة حتى أدخلت عليهم الدار
   بلوغ المرام‏‏‏‏اتحلفون وتستحقون دم صاحبكم؟ قالوا: لا قال: فيحلف لكم يهود؟ قالوا: ليسوا مسلمين
   مسندالحميديالكبر الكبر

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4723 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4723  
اردو حاشہ:
(1) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔
(2) گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا مطالبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4723   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1638  
´ایک شخص کو کتنی زکاۃ دی جائے؟`
بشیر بن یسار کہتے ہیں کہ انصار کے ایک آدمی نے انہیں خبر دی جس کا نام سہل بن ابی حثمہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ ان کو دیت کے دیئے یعنی اس انصاری کی دیت جو خیبر میں قتل کیا گیا تھا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1638]
1638. اردو حاشیہ: اس کی تفصیل آگے (باب القسامۃ) میں آئے گی۔کہ عبد اللہ بن سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ خیبر میں قتل کردیئے گئے تھے۔تورسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت ادافرمائی تھی۔اس سے استدلال یہ ہے کہ امیر یا صاحب صدقہ کو رخصت ہے کہ مستحقین کو صدقہ کے مال سے اتنا وے سکتے ہیں کہ حقدار کا حق پوراادا ہوجائے اور محتاج غنی ہوجائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1638   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4521  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما کسی پریشانی کی وجہ سے جس سے وہ دو چار ہوئے خیبر کی طرف نکلے پھر کسی نے آ کر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ بن سہل مار ڈالے گئے اور انہیں کسی کنویں یا چشمے میں ڈال دیا گیا، وہ (محیصہ) یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے: قسم اللہ کی! تم نے ہی انہیں قتل کیا ہے، وہ بولے: اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل تینوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4521]
فوائد ومسائل:
1: قتل یادیگر امور میں تصفیہ کے لئے کفار سے بھی قسمیں لی جائیں۔
اللہ کے نام قسمیں بشرطیکہ فریق ثانی ان کا اعتبار کرے۔

2: حکومت اسلامیہ میں کسی بھی شخص کا خون ضائع نہیں کیا جاسکتا۔

3: اگر مدعاعلیہ متعین نہ ہوسکے اور معاملہ مشتبہ ہو تو بیت المال سے دیت ادا کی جائے گی۔

4: کفار کے ہاں محنت مزدوری اور ملازمت کرنے میں حرج نہیں، بشرطیکہ انسان اپنا دین اسلام محفوظ رکھ سکے۔

5: مجلس میں با ت پیش کرنی ہو تو چھوٹے کو چاہیے کہ بڑے ادب کرتے ہوئے پہلے اسے بات کرنے دے۔

6: قسامت سے قتل کا دعوی ثابت ہوجانے کی صورت میں مدعاعلیہ کو قصاص میں قتل فقہاء کا اختلاف ہے، البتہ دیت لازم ہونے پر اتفاق ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4521   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4523  
´قسامہ میں قصاص نہ لینے کا بیان۔`
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے چند آدمی خیبر گئے، وہاں پہنچ کر وہ جدا ہو گئے، پھر اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا تو جن کے پاس اسے پایا ان سے ان لوگوں نے کہا: تم لوگوں نے ہی ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے، وہ کہنے لگے: ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کا پتا ہے چنانچہ ہم لوگ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، تو آپ نے ان سے فرمایا: تم اس پر گواہ لے کر آؤ کہ کس نے اسے مارا ہے؟ انہوں نے کہا: ہمارے پاس گواہ نہیں ہے، اس پر آپ نے فرمایا: پھر وہ یعنی یہود تمہارے لیے قس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4523]
فوائد ومسائل:
صحیح اور راجح یہ ہے کہ پہلےمدعی لوگوں میں سے بچاس آدمی قسمیں کھا کر اپنا دعوی ثابت کریں گے، تب فریق مخالف سے قسمیں وغیرہ لی جائیں گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4523   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1020  
´دعویٰ خون اور قسامت`
سیدنا سہل بن ابی حثمہ نے اپنی قوم کے بڑے بزرگوں سے روایت بیان کی ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہما اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے۔ پس محیصہ نے آ کر اطلاع دی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اور اسے ایک چشمہ میں پھینک دیا گیا ہے۔ محیصہ رضی اللہ عنہ یہود کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے۔ وہ بولے اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ اور اس کا بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہم تینوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پہنچے اور محیصہ نے گفتگو کرنی چاہی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کو بات کرنے دو بڑے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد تھی جو تم میں عمر میں بڑا ہے (اسے بات کرنی چاہیئے) چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے بیان دیا پھر محیصہ بولا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ یا تو تمہارے صاحب و ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خط تحریر فرمایا جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ اللہ کی قسم ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل (رضی اللہ عنہم) سے فرمایا کیا تم لوگ قسم کھا کر اپنے صاحب کے خون کے حقدار بنو گے؟ انہوں نے جواب دیا۔ نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم کو یہودی قسم دیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ تو مسلمان نہیں ہیں (اس لئے ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں) پس پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس (بیت المال) سے دی اور ان کو سو اونٹنیاں بھیج دیں۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان میں سے ایک سرخ رنگ کی اونٹنی نے مجھے لات ماری۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1020»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب كتاب الحاكم إلي عماله والقاضي إلي أمنائه، حديث:7192، ومسلم، القسامة والمحاربين....، باب القسامة، حديث:1669.»
تشریح:
1. اس حدیث سے قسامت کا ثبوت ملتا ہے۔
2.قسامت یہ ہے کہ قاتل کا کسی طرح پتہ نہ چلنے کی وجہ سے مشتبہ اشخاص سے قسم لی جائے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا اور انھیں اس کے قاتل کا علم بھی نہیں۔
3. یہ طریقہ دور جاہلیت میں بھی تھا‘ اسلام نے اسے جائز رکھا۔
4. اس میں پچاس آدمیوں کی قسمیہ شہادت ہوتی ہے کہ ہم نے یا ہمارے قبیلے نے یا ہمارے گاؤں کے لوگوں نے اسے قتل نہیں کیا۔
5. معلوم رہے کہ یہ قسم صرف خون کے مقدمے میں ہوتی ہے‘ باقی حدود کے مقدمات میں ایسی قسمیہ شہادت قبول نہیں ہوتی۔
6. قسامت میں اگر مقتول کے اولیاء و ورثاء ثبوت پیش کردیں یا عدم ثبوت کی صورت میں قسم دے دیں کہ ہمارے مقتول کے قاتل یہی ہیں تو مدعا علیہ پر دیت لازم ہو جاتی ہے۔
اگر مدعی ان دونوں باتوں سے قاصر ہوں اور مدعا علیہ یا مدعا علیہم پچاس قسمیں دے دیں تو وہ بری ہو جاتے ہیں۔
7.قسمیں ان حضرات کی تسلیم ہوں گی جن کو مدعی منتخب کرے۔
8. اس حدیث سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماعی معاملات کی بابت عمررسیدہ کو بات پہلے کرنی چاہیے۔
9. قسامت والے معاملے میں پہلے قسم مقتول کے اولیاء کے ذمے ہوگی‘ اگر وہ گریز اور اعراض کریں تو پھر جن پر دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ قسم کھا لیں گے اور بری ہو جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اور اگر قسمیں نہیں کھائیں گے تو ان پر دیت لازم ہو گی۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ عبداللہ بن سہل بن زید بن کعب بن عامر انصاری حارثی۔
خیبر میں قتل کیے گئے اور ایک چشمہ میں پائے گئے کہ ان کی گردن توڑ دی گئی تھی۔
«حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ابوسعید محیصہ بن مسعود بن کعب حارثی انصاری مدنی۔
عبداللہ بن سہل مقتول کے چچا زاد بھائی تھے۔
مشہور و معروف صحابی ہیں۔
ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔
احد و خندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فدک کی طرف بھیجا تھا تاکہ اہل فدک کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔
«حضرت حُوَیِّصَہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ محیصہ کے سگے بڑے بھائی ہیں۔
۳ ہجری میں اسلام قبول کیا۔
اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔
«حضرت عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ یہ عبداللہ بن سہل کے بھائی تھے۔
ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت نافع بن عامر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ بدر و احد اور باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔
یہ وہ صاحب تھے جنھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔
حضرت عُمارہ بن حزم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھیں جھاڑ پھونک کی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کی بابت تردد کا اظہار کیا ہے اور اسے بعید تصور کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1020   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4714  
´قسامہ میں قسم کی ابتداء مقتول کے ورثاء کی طرف سے ہونے کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما (رزق کی) تنگی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے تو محیصہ کے پاس کسی نے آ کر بتایا کہ عبداللہ بن سہل کا قتل ہو گیا ہے، اور انہیں ایک کنویں میں یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، یہ سن کر وہ (محیصہ) یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم ہی نے انہیں قتل کیا ہے۔ وہ بولے: اللہ کی قسم! انہیں ہم نے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4714]
اردو حاشہ:
(1) یہ حدیث مبارکہ قسامت کی مشروعیت کی صریح دلیل ہے۔ مسئلہ اب بھی اسی طرح ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہم معاملے میں بڑی عمر والے ہی کو مقدم کیا جائے۔ پہلے اسے بات کرنے کا موقع دیا جائے بشرطیکہ اس میں اس کی اہلیت ہو۔ ہاں اگر بڑی عمر والا ایسی صلاحیت سے عاری ہو تو پھر چھوٹے کی بات کا اعتبار ہوگا۔
(3) قسامت میں قتل ثابت کرنے کے لیے بالجزم اور پختہ قسمیں کھانا ضروری ہے، مقتول شخص کو قتل ہوتے دیکھا ہو یا پھر کسی پختہ ذریعے سے قاتل کی اطلاع ملی ہو۔ اس کے علاوہ، محض گمان کی بنیاد پر قتل ثابت نہیں ہوگا۔
(4) عبداللہ بن سہل اور محیصہ آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔ خیبر میں ان کی زمین تھی جو خیبر کی غنیمت سے ملی تھی۔
(5) حق دار بنتے ہو بعض روایات میں پہلے یہودیوں سے قسم لینے کا ذکر ہے کیونکہ وہ مدعی علیہ تھے اور قسم مدعی علیہ کا حق ہے۔ اس حدیث میں مدعیان سے پہلے قسم لینے کا ذکر ہے۔ قسامت میں دوسری صورت کے مطابق ہی عمل ہوگا، اسی قسم کی روایات کو ترجیح حاصل ہے، اگرچہ عام معاملات میں مدعی کے ذمے دلیل اور مدعی علیہ پر قسم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4714   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4719  
´اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما خیبر کی طرف چلے، اس وقت صلح چل رہی تھی، محیصہ اپنے کام کے لیے جدا ہو گئے، پھر وہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کا قتل ہو گیا ہے اور وہ مقتول ہو کر اپنے خون میں لوٹ پوٹ رہے تھے، انہیں دفن کیا اور مدینے آئے، عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ (رضی اللہ عنہم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4719]
اردو حاشہ:
اپنی طرف سے یعنی بیت المال سے، کیونکہ بیت المال آپ کے ماتحت تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4719   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4721  
´اس سلسلے میں سہل کی حدیث کے ناقلین کے الفاظ میں اختلاف کا ذکر۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی اور ان کے چچا حویصہ اور محیصہ رضی اللہ عنہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ بات کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو، ان دونوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے خیبر کے ایک کنویں میں عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا ہے، آپ نے فرمایا: تمہارا ش۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4721]
اردو حاشہ:
مالک بن انس نے یہ روایت مرسل بیان کی امام مالک رحمہ اللہ یہ روایت دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں: ابو لیلیٰ اور یحییٰ بن سعید سے۔ جب وہ یحییٰ بن سعید سے بیان کرتے ہیں تو مرسل بیان کرتے ہیں، یعنی سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کرتے۔ جب ابو لیلیٰ سے بیان کرتے ہیں تو موصول بیان کرتے ہیں، اس لیے امام مالک کی یہ روایت شواہد ومتابعات کی بنا پر صحیح ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت (4722) آئندہ آ رہی ہے جبکہ ابو لیلیٰ سے مروی روایت اس سے قبل (حدیث: 4714) گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4721   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2677  
´قسامہ کا بیان۔`
سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما دونوں محتاجی کی وجہ سے جو ان کو لاحق تھی (روزگار کی تلاش میں) اس یہودی بستی خیبر کی طرف نکلے، محیصہ رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ قتل کر دئیے گئے ہیں، اور انہیں خیبر کے ایک گڑھے یا چشمے میں ڈال دیا گیا ہے، وہ یہودیوں کے پاس گئے، اور کہا: اللہ کی قسم، تم لوگوں نے ہی ان (عبداللہ بن سہل) کو قتل کیا ہے، وہ قسم کھا کر کہنے لگے کہ ہم نے ان کا قتل نہیں کیا ہے، اس کے بعد محیصہ رضی اللہ عنہ خیبر سے واپس اپنی قوم کے پاس پہنچے، اور ان سے اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2677]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
جب کوئی شخص قتل ہوجائے اور اس کے قاتلوں کا پتہ نہ چلے تو مدعی قبیلے کے پچاس آدمی مشکوک افراد کے بارے میں قسم کھائیں کہ یہ ہمارے قاتل ہیں۔
اگر وہ قسم کھالیں تو مدعا علیہم سے دیت دلوائی جائے گی۔
اگر یہ لوگ قسم نہ کھائیں تو مدعا علیہم میں سے پچاس آدمی یہ قسم کھائیں گے کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، نہ ہم قاتل کو جانتے ہیں۔
اگر وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو ان پر ضروری ہوگا کہ قاتل کو پیش کریں اور اگر وہ قسم کھا لیں تو وہ بری ہوجائیں گے اور ان سے دیت وصول نہیں کی جائے گی۔
اس صورت میں دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی۔

(2)
قسم کھانےوالوں میں کوئی بچہ، عورت، غلام یا مجنون شامل نہیں ہونا چاہیے۔
اگر پچاس افراد کی تعداد مکمل نہ ہوسکے تو جتنے افراد موجود ہیں وہی پچاس قسموں کی تعداد پوری کریں۔ (حاشیة سنن ابن ماجة از محمد فؤاد عبدالباقی)

(3)
اہم معاملات میں بزرگوں کوبات کرنی چاہیے، نیز بزرگوں کو موجودگی میں نوجوانوں کو بات کرنے میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2677   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:407  
407- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ خیبر کے ایک کنوئیں (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک گڑھے کے کنارے مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی سیدنا عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ اور ان کے دو چچا سیدنا حویصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، سیدنا عبدالرحمٰن بات شروع کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے بڑے کو بات کرنے دو، پہلے بڑے کو بات کرنے دو۔ تو سیدنا محیصہ رضی اللہ عنہ نے بات شروع کی، انہوں نے سیدنا عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:407]
فائدہ:
امام تر مذی یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
یہ حدیث حسن صحیح ہے
(2) قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے
③ مدینہ کے بعض فقہا ء قسامہ کی بناپر قصاص درست سمجھتے ہیں۔
④ کوفہ کے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں: قسامہ کی بنا پر قصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔
قسامہ: نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جا تا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کا علم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کوقتل کیا ہے، مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کا سامان کسی انسان کے پاس پایا جائے، یہ سب قرائن ہیں، تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھا کر مقتول کے خون کا مستحق ہو جائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں بہا سے بری ہو جائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 407   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4346  
حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل بن زید اور محیصہ بن مسعود بن زید ا نصاری رضی اللہ تعالی عنہم، جو بنو حارثہ سے تعلق رکھتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں خیبر کی طرف گئے، اور وہاں کے باشندوں سے صلح تھی، اور وہاں کے باشندے یہودی تھے، تو وہ دونوں ضرورت کے تحت الگ الگ ہو گئے، اس کے بعد عبداللہ بن سہل رضی اللہ تعالی عنہ قتل کر دئیے گئے اور ایک پانی کے حوض سے لاش ملی، ان کے ساتھی نے اسے دفن کر دیا، پھر مدینہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4346]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
هي يومئذ صلح:
ان دنوں ان سے مصالحت تھی کہ اس کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
(1)
خیبر ابھی فتح نہیں ہوا تھا،
لیکن وہاں کے لوگوں کے ساتھ امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کا معاہدہ تھا،
کیونکہ بعض روایات میں ہے،
آپﷺ نے یہود کو دھمکی دی تھی،
اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کا اعلان سن لو۔
اگر خیبر فتح ہو چکا تھا،
تو اعلان جنگ کی اطلاع کی ضرورت نہ تھی،
مسلمان ان کو ویسے ہی خیبر سے نکال سکتے تھے،
جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔
(2)
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ واقعہ فتح خیبر کے بعد پیش آیا (فتح الباری،
ج 12،
ص 390،
مکتبہ دارالسلام)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4346   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7192  
7192. سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ اور ان کی قوم کے بڑے بڑے فضلاء سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ ؓ خیبر کی طرف گئے کیونکہ وہ ن دونں تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ محیصہ ؓ کو بتایا گیا کہ عبداللہ کو قتل کر کے گڑھے یا پانی کے چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم نے عبداللہ کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل آئے۔ محیصہ نے بات کرنا چاہی کیونکہ وہی خیبر میں موجود تھے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: بڑے کو آگے کرو۔ یعنی جو عمر میں تم سے بڑا ہے، چنانچہ حویصہ نے بات کا آغاز کیا، پھر محیصہ نے بھی گفتگو کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا: وہ تمہارے ساتھی کی دیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7192]
حدیث حاشیہ:
آپ نے یہودیوں کو اس مقدمہ قتل کے بارے میں سوا لنامہ لکھوا کر بھیجا اسی سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7192   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3173  
3173. حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: پھر یہودی پچاس قسمیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3173]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت ﷺنے اپنے پاس سے دیت ادا کرکے خیبر کے یہودیوں سے صلح قائم رکھی، باب کا یہ ترجمہ جو کوئی عہد کو پورا نہ کرے اس کا گناہ حدیث سے نہیں نکلتا۔
شاید حضرت امام بخاری ؒ کو اس باب میں کوئی حدیث لکھنی منظور تھی اتفاق نہ ہوا یا اس مضمون کی حدیث ان کو ان کی شرط کے مطابق نہ ملی۔
قاتل پر حق ثابت ہونے سے مقتول کے آدمیوں کو دیت دینی ہوگی۔
وہ قاتل اگر قتل کا اقرار کرلے تو قصاص بھی لیا جاسکتاہے۔
یہ قسامت کی صورت ہے۔
اس میں مدعی سے پچاس قسمیں لی جاتی ہیں کہ میرا گمان فلاں شخص پر ہے کہ اسی نے مارا ہے۔
اس سے آنحضرت ﷺکی صلح جوئی، امن پسند پالیسی، فراخدلی بھی ثابت ہوئی، باوجودیکہ مقتول ایک مسلمان تھا جو یہود کے ماحول میں قتل ہوا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی اس حرکت کو نظرانداز فرمادیا، تاکہ امن کی فضا قائم رہے۔
اور کوئی طویل فساد نہ کھڑا ہوجائے، آپ نے مسلمان مقتول کے وارثوں کو خود بیت المال سے دیت ادا فرمادی، ایسے واقعات سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہئے جو اسلام کو بزور تلوار پھیلانے کا غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔
مذاہب کی دنیا میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کو زیادہ سے زیادہ امن دینے کا حامی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3173   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3173  
3173. حضرت سہل بن ابی حثمہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود بن زید ؓخیبر کی طرف گئے جبکہ ان دنوں یہودیوں سے صلح تھی۔ وہاں پہنچ کر دونوں جداجدا ہوگئے، پھر جب محیصہؓحضرت عبداللہ بن سہل ؓ کے پاس آئے تو دیکھا کہ وہ ا پنے خون میں لت پت ہے، کسی نے ان کو قتل کرڈالا ہے۔ خیر محیصہ ؓ نے انھیں دفن کردیا۔ اسکے بعد وہ مدینہ طیبہ آئے تو عبدالرحمان بن سہل اور محیصہ، حویصہ جو مسعود کے بیٹے تھے نبی کریم ﷺ کے پاس گئے۔ عبدالرحمان نے بات کرنا چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: بڑے کو بات کرنے دو۔ چونکہ وہ سب سے چھوٹے تھے، اس لیے خاموش ہو گئے۔ تب حویصہ اور محیصہ نے گفتگو کی۔ آپ نے فرمایا: تم قسم اٹھا کر قاتل یا ا پنے ساتھی کے خون کا استحقاق ثابت کرو گے؟ انھوں نے عرض کیا: ہم کیونکر قسم اٹھا سکتے ہیں جبکہ ہم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ہم نہ انھیں دیکھا ہی ہےآپ نے فرمایا: پھر یہودی پچاس قسمیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3173]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺنے اپنی طرف سے مقتول کے ورثاء کو خون بہادے کر خیبر کے یہودیوں سے صلح برقرار رکھی۔
اگرمال دے کسی مصلحت کی بنا پر سابقہ صلح کو برقرار رکھا جاسکتا ہے تو بوقت ضرورت مال دے کر کفار سے صلح بھی کی جاسکتی ہے۔

مشرکین وکفار کو مال دے کر صلح کرنے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس صلح میں مسلمانوں کے لیے بہتری ہو۔
اگراس کے برعکس کفار سے مال لے کر صلح کی جائے تووہ مال جزیے کے مصارف میں خرچ کیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے مطابق دیگرمقامات پر ذکر کردہ احادیث سے بدعہدی وغیرہ کی سنگینی کو ثابت کیا ہے۔
عنوان سے ان احادیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اس حدیث سے رسول اللہ ﷺکی امن پسندی، فراخدلی اور صلح جوئی ثابت ہوتی ہے، باوجود یہ کہ مقتول ایک مسلمان تھا جویہودیوں کے علاقے میں قتل ہوا مگررسول اللہﷺنے ان کی حرکت کو نظر انداز کردیا تاکہ امن کی فضا قائم رہے اور کوئی فساد نہ کھڑا ہوجائے۔
جب فریقین کی بات فیصلہ کن مراحل میں پہنچتی نظر نہ آئی تو آپ نے مقتول کے مسلمان ورثاء کو خود بیت المال سے دیت ادا کردی۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3173   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6898  
6898. حضرت بشیر بن یسار سے روایت ہے انہوں نے کہا: انصار کےایک صاحب حضرت سہل بن ابی ثمہ ؓ نے بتایا کہ ان کی قوم کے چند لوگ خیبر گئے اور وہاں انہوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا۔ جہاں مقتول ملا تھا وہاں کے لوگوں سے انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ہم نے قتل نہیں کیا اور نہ ہم قاتل ہی کو جانتے ہیں۔ پھر یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنے میں سے ایک مقتول کو پایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جو بڑا ہے وہ بات کرے۔ نیز آپ نے فرمایا: تم اس پر گواہ پیش کرو جس نے قتل کیاہے۔ انہوں نے کہا: ہمارے اس کے متعلق کوئی گواہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ فرمایا: (اگر تمہارے پاس گواہ نہیں) تو وہ (یہودی) قسم کھائیں گے۔ انہوں نے کہا: ان (یہود) کی قسم پر ہمیں اعتماد نہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6898]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ لوگ تمھارے ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔
آپ نے مزید فرمایا:
کیا تم لوگ قسم اٹھا کر اپنے ساتھی کے خون کے حق دار بنو گے؟ انھوں نے کہا:
ہم کس طرح قسم اٹھائیں جبکہ ہم وہاں موجود نہیں تھے اور نہ ہم نے کچھ دیکھا ہی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پھر وہ پچاس قسمیں اٹھا کر تم سے خود کو بری کرلیں۔
انھوں نے کہا:
ہم کافروں کی قسموں کا کیسے اعتبار کریں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کر دی۔
(صحیح البخاري، الجزیة، حدیث: 3173)
مقصد یہ ہے کہ جھگڑا ختم کرنے کے لیے ایسے معاملات میں بیت المال سے دیت ادا کر دی جائے۔
جب بیت المال نہ ہو تو حکومت اپنے خزانے سے مقتول کا خون بہا ادا کر دے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قسامت میں قصاص کے بجائے دیت دینے پر فیصلہ ہوگا جیسا کہ مذکورہ حدیث میں وضاحت ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف یہ معلوم ہوتا ہے کہ قسامت میں قسم لینے کا آغاز مدعی علیہ سے کیا جائے گا جیسا کہ پیش کردہ حدیث میں ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق پہلے مدعی سے دلیل کا مطالبہ کیا جائے، اگر اس کے پاس دلیل نہ ہو تو انھیں پچاس قسمیں اٹھانے کا کہا جائے۔
اگر وہ قسمیں نہ اٹھائیں تو مدعی علیہ سے قسم لی جائے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم قاتل پر دوگواہ پیش کرو تو اسے تمھارے حوالے کر دیا جائے گا۔
انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم گواہ کہاں سے لائیں مقتول تو یہودیوں کے دروازے کے پاس برآمد ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا:
تم پچاس قسمیں اٹھاؤ کہ ہمارے آدمی کو فلاں آدمی نے قتل کیا ہے۔
انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! جس بات کا ہمیں یقین نہیں ہم اس کے متعلق قسم کیسے اٹھائیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پھر یہودی پچاس قسمیں اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو جائیں گے۔
انھوں نے کہا:
اللہ کے رسول! ہم یہودیوں سے کیوں قسمیں لیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا نمٹانے کے لیے اپنے پاس سے دیت ادا کر دی۔
(سنن النسائي، القسامة، حدیث: 4724)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو انھوں نے عرض کی:
اللہ کے رسول! وہاں تو مسلمان نہیں رہتے جو ہمارے حق میں گواہی دیں، وہاں تو یہودی بستے ہیں جو اس سے بھی بڑے کام پر جرأت کر سکتے ہیں، یعنی جھوٹی قسم اٹھا سکتے ہیں۔
(سنن أبي داود، الدیات، حدیث: 4524)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6898   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7192  
7192. سیدنا سہل بن ابی حثمہ ؓ اور ان کی قوم کے بڑے بڑے فضلاء سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ ؓ خیبر کی طرف گئے کیونکہ وہ ن دونں تنگ دستی میں مبتلا تھے۔ محیصہ ؓ کو بتایا گیا کہ عبداللہ کو قتل کر کے گڑھے یا پانی کے چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ وہ یہودیوں کے پاس گئے اور کہا: اللہ کی قسم! تم نے عبداللہ کو قتل کیا ہے انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر وہ واپس اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس بات کا ذکر کیا۔ اس کے بعد وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمن بن سہل آئے۔ محیصہ نے بات کرنا چاہی کیونکہ وہی خیبر میں موجود تھے تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: بڑے کو آگے کرو۔ یعنی جو عمر میں تم سے بڑا ہے، چنانچہ حویصہ نے بات کا آغاز کیا، پھر محیصہ نے بھی گفتگو کی۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کے متعلق فرمایا: وہ تمہارے ساتھی کی دیت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7192]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے اپنی طرف سے مقتول کی دیت ادا کر دی، نیز ان کی تالیف قلب (دل جوئی کرنا)
بھی مقصود تھی ورنہ ان کا حق نہیں بنتا تھا کیونکہ وہ خود قسم اٹھانے پر آمادہ نہ تھے اور نہ یہودیوں کی قسم پر انھیں اعتبار ہی تھا۔

عنوان کامقصد یہ ہے کہ حاکم وقت اپنے کارندوں کو زکاۃ کی وصولی یا جہاد سے متعلقہ ہدایات لکھ کر بھیج سکتا ہے، لیکن حدیث میں اپنے نائب کو لکھنے کا ذکر نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فریق مخالف یہودیوں کو لکھا۔
جب انھیں لکھا جا سکتا ہے تو اپنے عملے کو لکھنے میں کیا حرج ہے۔
(فتح الباري: 229/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7192