ابوالمنہال کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ کھجور میں دو تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے، آپ نے انہیں روک دیا، اور فرمایا: ”جو بیع سلم کرے تو مقررہ ناپ، مقررہ وزن میں مقررہ مدت تک کے لیے کرے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4620]
وضاحت: ۱؎: ناپ وزن اور اس میں یہ تعیین و تحدید اس لیے ہے تاکہ جھگڑے اور اختلاف پیدا ہونے والی بات نہ رہ جائے، اگر مدت نہ معلوم ہو اور وزن اور ناپ نہ متعین ہو تو بیع سلف صحیح نہ ہو گی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4620
اردو حاشہ: معین ماپ سے مراد غلے یا پھل کی مقدار ہے جس کی بیع کی جا رہی ہے۔ اور معین وزن سے مراد سونے چاندی کی مقدار ہے جو بطور قیمت دیا جا رہا ہے، یعنی بھاؤ کر کے مقرر کر لیا جائے۔ معین مدت سے مراد وہ وقت ہے جب غلے یا پھل کی ادائیگی طے ہوئی ہے۔ گویا ہر چیز واضح کر لی جائے۔ کسی چیز میں ابہام نہ رہے تا کہ تنازع کا امکان ختم ہو جائے اس صورت میں بیع سلم یا سلف جائز ہے، خواہ ایک سال سے زائد مدت کے لیے کی جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4620
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3463
´بیع سلف (سلم) کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اس وقت لوگ پھلوں میں سال سال، دو دو سال، تین تین سال کی بیع سلف کرتے تھے (یعنی مشتری بائع کو قیمت نقد دے دیتا اور بائع سال و دو سال تین سال کی جو بھی مدت متعین ہوتی مقررہ وقت تک پھل دیتا رہتا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کھجور کی پیشگی قیمت دینے کا معاملہ کرے اسے چاہیئے کہ معاملہ کرتے وقت پیمانہ وزن اور مدت سب کچھ معلوم و متعین کر لے ۲؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3463]
فوائد ومسائل: فائدہ۔ عبادات اور معاملات میں معروف فقہی قاعدہ ہے۔ کہ عبادات میں اصل منع ہے۔ یعنی کوئی عبادت نہیں کی جا سکتی سوائے اس کے جس کی شریعت اجازت دے۔ اور معاملات (جو لوگوں میں جاری وساری ہوں) اصلاً حلال اور جائز ہیں۔ الا یہ کہ کسی معاملے کے متعلق شریعت منع کردے۔ بیع سلف یا سلم پہلے سے لوگوں کامعمول تھی۔ جس کی نبی کریم ﷺنے توثیق فرمائی۔ تا ہم یہ پابندی لگائی کہ امل کی صفت بھرتی یا وزن اور مدت معلوم ومتعین ہو۔ اس کے بغیر بیع سلم جائز نہیں ہوگی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3463
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2280
´متعین ناپ تول میں ایک مقررہ مدت کے وعدے پر بیع سلف کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، اس وقت اہل مدینہ دو سال اور تین سال کی قیمت پہلے ادا کر کے کھجور کی بیع سلف کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کھجور میں بیع سلف کرے یعنی قیمت پیشگی ادا کر دے تو اسے چاہیئے کہ یہ بیع متعین ناپ تول اور مقررہ میعاد پر کرے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2280]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) چیز کی قیمت پیشگی وصول کر لینا اور چیز بعد میں مقررہ وقت پر ادا کرنا بیع سلم اور بیع سلف کہلاتا ہے۔
(2) اس بیع کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ بیچی اور خریدی جانے والی چیز کی مقدار، نوعیت، مطلوبہ چیز کی ادائیگی اور وصولی کا وقت اور دوسرے ایسے معاملات کا پہلے سے تعین کر لیا جائے جن میں اختلاف ہونے کا خطرہ ہے۔
(3) بیع سلف میں یہ ضروری نہیں کہ بیچنے والے کے پاس وہ چیز اس وقت موجود ہو بلکہ جب غالب امکان ہو کہ وعدے کے وقت تک بیچنے والا وہ چیز حاصل کر لے گا اور مقررہ وقت پر خریدار کے حوالے کر سکے گا تو یہ کافی ہے۔
(4) بیع سلف میں قیمت کا تعین بھی پہلے ہی ہوتا ہے جب رقم ادا کی جاتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2280
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:520
520- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو وہاں کے لوگ کھجوروں میں دو یا تین سال کے لئے بیع سلف کرلیتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس بیع سلف کرنی ہو وہ کھجوروں کی متعین تعداد اور معتین وزن یا متعین ناپ میں متعین مدت تک کے لیے بیع سلف کرے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:520]
فائدہ: اس حدیث میں بیع سلف کا بیان ہے، سلف اور سلم دونوں ایک ہی چیز ہیں، اس سے مراد ایک ایسی بیع جس میں قیمت پہلے ادا کی جاتی ہے اور سودا تاخیر سے مگر عین وقت پر لیا جا تا ہے۔ یہ بیع حدیث میں مذکورہ شروط کے مطابق درست ہے، اور وہ شرائط یہ ہیں: چیز معین ہو، اس کی مقدار اور مدت معلوم ہو، اور یہ بیع تمام چیزوں میں جائز ہے، کیونکہ [صحيح البخاري: 2241] کے الفاظ ہیں: «مـن أسـلـف فـي شيئ»(جو کسی بھی چیز کی پیشنگی قیمت ادا کرے)، اس حدیث کے عموم میں تمام چیز میں شامل ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 520
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4118
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ ایک سال اور دو سال کے ادھار پر پھلوں کی بیع کرتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کھجوروں کی بیع سلف کی، تو وہ معین ماپ، معین تول اور وقت مقرر کے لیے کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4118]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: سلف اور سلم، دونوں ہم وزن اور ہم معنی ہیں، اہل حجاز، سلم کہتے ہیں اور اہل عراق سلف، چونکہ رقم مجلس بیع میں حوالہ کر دی گئی ہے، اس لیے یہ سلم ہے اور پہلے رقم دینے کی وجہ سے یہ سلف ہے، جس میں قیمت نقد ادا کر دی جاتی ہے اور چیز بعد میں لی جاتی ہے۔ فوائد ومسائل: بیع سلم کے جواز پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، لیکن امام ابن حزم کے نزدیک اس کا تعلق کیلی اور وزنی اشیاء سے ہے، جن چیزوں کی پیمائش کی جاتی ہے، یا جن کو گنا جاتا ہے، ان میں جائز نہیں ہے، اور جمہور فقہاء کے نزدیک ہر صورت میں جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے، معاملہ ہر اعتبار سے واضح ہو، ہر چیز کا تعین ہو جائے، کوئی ایسی بات نہ رہ جائے جو اختلاف یا تنازع کا باعث بنتی ہے، مثلا مقدار، مدت، جنس (گندم ہے، چاول ہے، جو ہے) نوع (قسم) ، صفت و کیفیت (اعلیٰ قسم یا درمیانی) اور قیمت ہر چیز تفصیل سے طے ہو جائے، اور احناف کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ چیز، بیع کرتے وقت مارکیٹ میں موجود ہو اور مدت مقررہ تک دستیاب ہو لیکن جمہور کے نزدیک، مدت مقررہ پر موجود ہونا ضروری ہے، بیع کے وقت موجود ہونا شرط نہیں ہے، علامہ تقی عثمانی نے جمہور کے موقف کو مسلم کے تقاضا اور مقصد کے موافق قرار دیا ہے۔ تکملہ ج 1، ص 655۔ اس طرح، یہ بھی طے ہونا چاہیے، کہ وہ چیز کس جگہ وصول کی جائے گی، اگر پھل یا غلہ کا تعلق کسی مخصوص باغ یا کھیت سے ہو، تو پھر بیع سلم، پکنے کی صلاحیت کے نمایاں ہونے کے بعد ہو سکے گی، پہلے نہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4118
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2239
2239. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو (مدینہ کے)لوگ پھلوں سال یا دوسال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انھوں نے فرمایا کہ دو سال یا تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ اسماعیل (ابن علیہ) کو شک ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی کھجوروں کے لیے پیشگی ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ معین ماپ اور معین وزن کی وضاحت کے ساتھ بیع سلم کرے۔“ محمد نے بھی اسماعیل ابن علیہ کے طریق سے انھی الفاظ میں یہ روایت بیان کی ہے، یعنی معین ماپ اور مقرر وزن میں بیع سلم کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2239]
حدیث حاشیہ: جو چیزیں ماپ تول کر بیچی جاتی ہیں ان میں ماپ تول ٹھہرا کر سلم کرنا چاہئے۔ اگر ماپ تول مقرر نہ کئے جائیں تو یہ بیع سلم جائز نہ ہوگی الغرض اس بیع کے لیے ضروری ہے کہ وزن مقرر ہو اور مدت مقرر ہو ورنہ بہت سے مفاسد کا خطرہ ہے۔ اسی لیے حدیث ہذا میں اس کے لیے یہ تاکید کی گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2239
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2240
2240. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔“ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: ”معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2240]
حدیث حاشیہ: مثلاً سو روپے کا اتنے وزن کا غلہ آج سے پورے تین ماہ بعد تم سے وصول کروں گا۔ یہ طے کرکے خریدار نے سو روپیہ اسی وقت ادا کردیا۔ یہ بیع سلم ہے، جو جائز ہے۔ اب مدت پوری ہونے پر وزن مقررہ کا غلہ اسے خریدار کو ادا کرنا ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2240
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2239
2239. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو (مدینہ کے)لوگ پھلوں سال یا دوسال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ یا انھوں نے فرمایا کہ دو سال یا تین سال کے لیے بیع سلم کرتے تھے۔ اسماعیل (ابن علیہ) کو شک ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو کوئی کھجوروں کے لیے پیشگی ادائیگی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ معین ماپ اور معین وزن کی وضاحت کے ساتھ بیع سلم کرے۔“ محمد نے بھی اسماعیل ابن علیہ کے طریق سے انھی الفاظ میں یہ روایت بیان کی ہے، یعنی معین ماپ اور مقرر وزن میں بیع سلم کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2239]
حدیث حاشیہ: (1) بیع سلم میں نقدرقم کو رأس المال اور بیع کو مسلم کہتے ہیں، اس کی چند ایک شرائط ہیں: ٭ ماپ یا تول یا گن کردی جانے والی چیزوں میں ماپ، وزن اور تعداد کا تعین ضروری ہے۔ ٭ جو چیز پیشگی قیمت کے عوض ادا کرنی ہے اس کی جنس بیان کی جائے،وہ گندم ہے یا جویاکھجور۔ ٭ اس کی نوعیت اور اوصاف بتانا بھی ضروری ہیں کہ کون سی گندم یا کس قسم کی کھجور دینی ہے۔ ٭ مدت ادائیگی طے کرلی جائے کہ ایک مہینہ یا دو مہینے میں ادائیگی ہوگی، یعنی تاریخ کا تعین بھی ضروری ہے۔ ٭اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ وہ چیز کس جگہ یا مقام پر ادا کی جائے گی۔ ٭رأس المال بھی پیشگی مسلم الیہ کے حوالے کردیا جائے۔ (2) حدیث میں صرف ایک شرط کا بیان ہے کہ کیلی یا وزنی اشیاء کا ماپ اور وزن معین کرنا ضروری ہے، اگر وزن اور ماپ مقرر نہ کیا جائے تو بہت سے مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2239
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2240
2240. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہاں کےباشندے دو تین سال کی معیاد پر کھجوروں کے متعلق پیشگی رقم ادا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”جب کوئی کسی چیز کے متعلق بیع سلم کرے تو معین ماپ معین وزن اور معین میعاد ٹھہرا کرکرے۔“ علی نے یہ روایت سفیان عن ابن ابی نجیح کے طریق سے بیان کی تو اس کے الفاظ اس طرح بیان کیے: ”معین ماپ اور معین میعاد ٹھہرا کر بیع سلم کرنی چاہیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2240]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں کھجور کا ذکر ہے کیونکہ مدینہ طیبہ میں کھجوروں کے متعلق ہی بیع سلم ہوا کرتی تھی، لیکن اگر کھجوریں درخت پر ہیں اور ان کی بیع سلم کرنی ہے تو اس کی شرائط آگے بیان ہوں گی، اس مقام پر صرف یہ بیان کرنا مقصد ہے کہ ماپ اور وزن کے ساتھ مدت کا تعین بھی ضروری ہے تاکہ کوئی جھگڑا پیدا نہ ہو، اگر اس میں خیانت ہوتو مقدمہ کیا جاسکتا ہے اور تاوان بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ (2) روز مرہ کی اشیاء ایسی بھی ہیں جن کا سودا گنتی کے اعتبار سے ہوتا ہے، مثلاً: انڈوں کی خریدوفروخت ان میں گنتی کا اعتبار ہوگا۔ یاد رہے کہ رقم کی ادائیگی میں کچھ پیشگی ہوسکتی ہے اور کچھ آئندہ وعدے پر بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلے میں بنک گارنٹی بھی کارآمد ہے بشرطیکہ اس میں سود کی آمیزش نہ ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2240