ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس برنی نامی کھجور لائے، تو آپ نے فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ وہ بولے: یہ میں نے ایک صاع دو صاع دے کر خریدی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”افسوس! یہ تو عین سود ہے، اس کے نزدیک مت جانا“۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4561]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4561
اردو حاشہ: (1) کھجور کو کھجور کے بدلے میں، کمی بیشی کے ساتھ بیچنا حرام ہے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کو اپنی رعایا اور متعلقہ لوگوں کے حالات سے باخبر رہنا چاہیے، اسے ان کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ امام اور ذمہ دار شخص جب کوئی ایسی بات سنے جو شرعاََ جائز ہو یا ایسی چیز اور معاملہ دیکھے جو شرعاََ حرام ہو تو اسے حرام کام کرنے والوں کو نہ صرف روکنا چاہیے بلکہ حق کی طرف ان کی رہنمائی بھی کرنی چاہیے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے کی صریح دلیل ہے کہ خبر واحد شرعی حجت ہے۔ (4)”عین سود“ یعنی خالص سود کیونکہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو تو سودے میں کمی بیشی سود ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4561