الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
22. بَابُ : الْبَيْعِ فِيمَنْ يَزِيدُ
22. باب: اس شخص کے ہاتھ بیچنا جو قیمت زیادہ دے یعنی نیلامی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4512
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ , وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ , قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ , عَنْ أَبِي بَكْرٍ الْحَنَفِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَاعَ قَدَحًا وَحِلْسًا فِيمَنْ يَزِيدُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالا اور ایک کمبل نیلام کیا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4512]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الزکاة 26 (1641)، سنن الترمذی/البیوع10(1218)، سنن ابن ماجہ/التجا رات25(2198)، (تحفة الأشراف: 978)، مسند احمد (3/100، 114، 126) (ضعیف) 1؎ (اس کے راوی ’’ابوبکر حنفی‘‘ مجہول ہیں)»

وضاحت: ۱؎: انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، مگر خرید و فروخت کے معاملات میں حرمت کی جو بنیاد ہے بیع مزایدہ (نیلام) پر صادق نہیں آتی، کیونکہ اس معاملہ میں بیچنے والے کی رائے کسی بھاؤ پر حتمی اور آخری نہیں اس لیے دوسرے خریدار کو بھاؤ بڑھا کر سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 4512 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4512  
اردو حاشہ:
(1) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک انصاری آدمی آپ کے پاس کچھ مانگنے آیا۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کوئی چیز (موجود) ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ایک کمبل ہے۔ ہم آدھا اوڑھ لیتے ہیں اور آدھا نیچے بچھاتے ہیں۔ اور ایک پیالہ ہے جس میں پانی پیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: دونوں چیزیں میرے پاس لے آؤ۔ وہ شخص دونوں چیزیں لے آتا تو نبی ﷺ نے دو درہم میں بیچ کر رقم اس انصاری کو دے دی اور فرمایا: ایک درہم کا کھانے پینے کا سامان خرید کر گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کا کلہاڑا خرید کر میرے پاس لے آؤ۔ اس شخص نے اسی طرح کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس (کلہاڑے) میں اپنے ہاتھ مبارک سے دستہ ٹھونک دیا اور فرمایا: جاؤ، لکڑیاں کاٹو اور بیچو۔ پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ وہ شخص چلا گیا، لکڑیاں کاٹتا اور فروخت کرتا رہا۔ اس کے بعد پھر وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم (جمع ہو چکے) تھے۔ آپ نے فرمایا: کچھ رقم سے کھانے پینے کی چیزیں خرید لو اور کچھ رقم کا کپڑا خرید لو۔ پھر آپ نے فرمایا: یہ (محنت مزدوری کر کے کمانا) تیرے لیے اس سے بہت بہتر ہے کہ تو قیامت کے دن آئے اور (لوگوں سے) مانگنے کی وجہ سے تیرا چہرہ داغ دار ہو … الخ۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1641، و سنن ابن ماجه، التجارات، حدیث: 2198)
(2) نیلامی کے ذریعے بیچا اسی مذکورہ حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اس سے زیادہ کون دے گا؟ ایک دوسرے شخص نے کہا: میں دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ نے اسے بیچ دیا۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1641، و سنن ابن ماجه: التجارات، حدیث: 2198) ایسی بیع کو نیلامی کی بیع کہا جاتا ہے جس میں بیچنے والا پہلی پیش کش پر راضی نہیں ہوتا، لہٰذا وہ نئے شخص سے نئے بھاؤ کا مطالبہ کرتا ہے، خواہ اسے دس مرتبہ ایسا کرنا پڑے۔ جس شخص کے بھاؤ کو وہ پسند کرے گا، اسے بیچ دے گا۔ اس بیع میں اصولی طور پر کوئی خرابی نہیں کیونکہ بیچنے والے نے پہلے خریدار کا بھاؤ رد کر دیا، لہٰذا نئے خریدار کے لیے نیا بھاؤ لگانا جائز ہے۔ بھاؤ پر بھاؤ اس وقت منع ہے جب خریدار اور بیچنے والا آپس میں بھاؤ کی بحت کر رہے ہوں اور رد و قبول کا فیصلہ نہ ہوا ہو، یا بھاؤ طے ہو گیا ہو اور دونوں نے قبول کر لیا ہو۔ نیلامی میں یہ خرابی نہیں، لہٰذا یہ بیع جائز ہے، البتہ اس سے مہنگائی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ بسا اوقات خریدار حضرات ضد میں بھاؤ بڑھانا شرع کر دیتے ہیں، اس لیے بلا ضرورت یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے تو اس فقیر کے مفاد کی خاطر یہ طریقہ اختیار فرمایا تھا۔ یہ بیع اس وقت ہی ہونی چاہیے جب چیز فروخت کرنا مقصود ہو۔ اگر مقصد چیز فروخت کرنا نہ ہو بلکہ نیلامی صرف قیمت بڑھانے کے لیے ہو تو پھر نیلامی کی بیع ناجائز ہے۔ ہاں، اگر نیلامی سے مہنگائی نہ بڑھتی ہو تو اس بیع میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4512