عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اس وقت تک اختیار رہتا ہے جب تک وہ جدا نہ ہوں، سوائے اس کے کہ وہ بیع خیار ہو، اور (کسی فریق کے لیے) یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے صاحب معاملہ سے اس اندیشے سے جدا ہو کہ کہیں وہ بیع فسخ کر دے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4488]
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ جدائی سے مراد جسمانی جدائی ہے، یعنی دونوں کی مجلس بدل جائے، نہ کہ مجلس ایک ہی ہو اور بات چیت کا موضوع بدل جائے جیسا کہ بعض علماء کا خیال ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4488
اردو حاشہ: (1) یہ حدیث تفرق بالابدان، یعنی ایک دوسرے سے جسمانی اور بدنی طور پر الگ ہونے کی صریح دلیل ہے۔ بعض لوگوں کا مسلک ہے کہ کسی مجلس میں سودا طے ہو جانے کے بعد مجلس کے اندر دوسری باتیں شروع ہو جائیں تو اختیار ختم ہو جاتا ہے، یعنی یہ حضرات تفرق بالاقوال کے قائل ہیں۔ مذکورہ بالا حدیث سے واضح طور پر ان کے مسلک کا، جو خالصتا رائے پر مبنی ہے، رد ہو رہا ہے۔ حق یہ ہے کہ تفرق بالاقوال والا مسلک ازروئے دلائل مرجوح ہے اور صریح حدیث کے خلاف بھی۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اسی مجلس میں ایک فریق نے دوسرے کو یہ اختیار دیا ہے کہ جو فیصلہ کرنا ہے ابھی اور اسی وقت کر لو، پھر سودا ہو جاتا ہے تو اب ان کا اختیار ختم ہو جائے گا، خواہ وہ مجلس کتنی دیر ہی برقرار رہے۔ (3) یہ حدیث مبارکہ اس اہم مسئلے پر بھی دلالت کرتی ہے کہ بائع اور مشتری دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں، لہٰذا دونوں میں سے کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ سودا پکا کرنے کے لیے جلدی کرے اور طے ہوتے ہی دونوں میں سے کوئی ایک اس مجلس سے فوراً چلا جائے اور دوسرے فریق کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ دے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ شخص اپنے فیصلے پر نادم ہو گا اور پچھتائے گا، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے ساتھی کو غور و فکر کی مہلت دے۔ (4)”واپسی کے ڈر سے“ کسی کو دھوکے میں رکھنا جائز نہیں چونکہ مجلس برقرار رکھنے تک واپسی کا حق ہے۔ اس حق کو زائل کرنے کی کوشش بھی حق تلفی میں آتی ہے۔ فریق ثانی سے خیر خواہی اور خلوص کا تقاضا یہ ہے کہ اسے اس کا حق استعمال کرنے کا پورا موقع دیا جائے۔ حدیث کے آخری الفاظ اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ یہاں خیار مجلس ثابت کیا جا رہا ہے اور جب تک وہ جسمانی طور پر اکٹھے ہیں، یہ حق باقی رہتا ہے ورنہ جدا ہونے سے روکنے کے کیا معنیٰ؟
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4488
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 693
´بیع میں اختیار کا بیان` سیدنا عمرو بن شعیب رحمہ اللہ نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خریدار اور فروخت کرنے والے کو اختیار حاصل ہے، تاوقتیکہ ایک دوسرے سے جدا ہوں، بشرطیکہ سودا اختیار والا ہو اور سودا واپس کرنے کے اندیشے کے پیش نظر جلدی سے الگ ہو جانا حلال نہیں ہے۔“ اسے ابن ماجہ کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ نیز دارقطنی، ابن خزیمہ اور ابن جارود نے بھی روایت کیا ہے اور ایک روایت میں ہے کہ ”جب تک وہ اپنی جگہ سے جدا (نہ) ہو جائیں۔“ «بلوغ المرام/حدیث: 693»
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في خيار المتبايعين، حديث:3456، والترمذي، البيوع، حديث:1247، والنسائي، البيوع، حديث:4488، وأحمد:2 /183.»
تشریح: اس حدیث میں بھی خیار مجلس کا ذکر ہے۔ خیار مجلس اکثر صحابہ و تابعین‘ امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے نزدیک ثابت ہے‘ البتہ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ اس کے قائل نہیں‘ حالانکہ پہلی حدیث اس مسئلے میں واضح نص کی حیثیت رکھتی ہے۔ شیخ الہند مولانا محمود الحسن (دیوبندی) نے کہا ہے کہ حق اور انصاف کی بات یہی ہے کہ اس مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کی بات دلائل کے اعتبار سے راجح ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو راجح قرار دیا ہے‘ مگر ہم مقلدین کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ دیکھیے: (تقریر ترمذی)
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 693