رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت کی تقسیم کے وقت دس بکریوں کو ایک اونٹ کے برابر رکھتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: مجھے غالب یقین یہی ہے کہ میں نے اسے سعید بن مسروق (سفیان ثوری کے والد) سے سنا ہے اور اسے مجھ سے سفیان نے ان سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4396]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4396
اردو حاشہ: قربانی اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ کی ہو سکتی ہے۔ چونکہ ہر آدمی بڑے جانور کی استطاعت نہیں رکھتا، لہٰذا چھوٹے جانور، یعنی بھیڑ بکری کی قربانی کرنا بھی درست ہے جبکہ گائے اور اونٹ کی قربانی مستحب۔ جس طرح ایک قربانی واجب ہے، زائد مستحب۔ گائے، بکری سے بہت بڑی ہوتی ہے اور اونٹ گائے سے کافی بڑا، اس لیے گائے کو برابر سمجھتے ہیں جیسا کہ آئندہ حدیث میں آرہا ہے مگر اونٹ اور گائے کا فرق واضح ہے جسے بچہ بھی محسوس کر سکتا ہے۔ دونوں کو برابر سمجھنا عجیب بات ہے۔ باب والی حدیث اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دے رہی ہے۔ باقی رہی سات والی حدیث تو اس میں اس سات سے زائد کی نفی نہیں جبکہ آئندہ حدیث دس کے بارے میں صریح ہے، لہٰذا اس کو ترجیح ہونی چاہیے۔ بعض علماء نے یوں تطبیق دینے کی کوشش کی ہے کہ دس والی روایت عام قربانیوں کے بارے میں جبکہ سات والی روایت حرم میں ذبح ہونے والی قربانیوں کے بارے میں ہے۔ بعض اہل علم نے سفر میں اونٹ کو دس قربانیوں کے برابر قرار دیا ہے جبکہ حضر میں سات کے برابر لیکن یہ سارے کے سارے اپنے اپنے انداز اور تخمینے ہی ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4396