عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جانوروں کی رکھوالی کرنے والے کتے یا شکاری کتے کے علاوہ کوئی کتا پالا تو روزانہ اس کے عمل (اجر) میں سے ایک قیراط کم ہو گا“، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی کہا: ”یا کھیتی کا کتا“۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4296]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4296
اردو حاشہ: (1) شکار کے کتے سے مراد وہ کتا ہے جو عملاََ شکار کے لیے استعمال ہو، یعنی اس کے ساتھ شکار کیا جائے نہ کہ صرف شکاری نسل سے ہو جیسا کہ آج کل سمجھا جاتا ہے۔ شرعاََ ہر وہ کتا شکاری ہو سکتا ہے جسے شکار کی تربیت و تعلیم دی جائے۔ یہ بات بہر صورت یاد رہنی چاہیے کہ جس شکار کی تربیت دے کر کتے کو سدھانا ہے، وہ شوقیہ خنزیر وغیرہ کا شکار نہیں بلکہ حلال جانوروں کا شکار ہے۔ (2) دوڑ کے لیے کتا رکھنا بھی گناہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کتے کو دوڑنے کے لیے پیدا نہیں کیا۔ کتے کے درڑنے سے بنی نوع انسان کو کوئی فائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ (3) کھیتی کی حفاظت کرنے والا کتا کھیت میں ہی رہنا چاہیے۔ اسی طرح جانوروں کی حفاظت کرنے والا کتا بھی جانوروں ہی میں رہے۔ گھر میں ان کا کوئی کام نہیں۔ شکار والا کتا بھی ممکن حد تک گھر سے باہر ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4296