ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ”لیکن ہم ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا ہو اور مجسمہ (مورت) ہو“۔ اس دن جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ چھوٹے چھوٹے کتوں (پلوں) کو بھی مارنے کا حکم دے رہے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4281]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18075) (صحیح) (یہ حدیث صحیح مسلم (2105)، سنن ابی داود (4157) میں بسند عبید بن السباق عن ابن عباس عن میمونہ آئی ہے۔»
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں ”چھوٹے باغوں کے کتوں کو مارنے اور بڑے باغوں کے کتوں کو چھوڑ دینے کا حکم دے رہے تھے، بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا، اور صرف کالے کتوں کو مارنے کا حکم دیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ يقتل كلب الحائط الصغير ويترك كلب الحائط الكبير
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4281
اردو حاشہ: (1) ضرورت پڑنے پر کتوں کو قتل کرنا جائز ہے۔ (2)”داخل نہیں ہوتے“ یعنی رحمت کے فرشتے ورنہ کاتب، محافظ اور موت کے فرشتے تو ہر گھر میں جاتے ہیں۔ (3)”تصویر“ مراد ذی روح کی تصویر ہے، خواہ وہ آدمی کی ہو یا حیوان کی، مجسم ہو یا منقش و نگار کی صورت میں ہو یا کپڑے پر بنائی گئی ہو یا وہ شمسی تصویر ہو، یہ سب اقسام حرام ہیں۔ صحیح احادیث کی روشنی میں فرشتے ان گھروں میں داخل نہیں ہوتے جن میں تصویریں ہوں۔ ہاں! صرف ان تصویروں کی رخصت ہے جو ناگزیر مقاصد کے لیے ہوں اور ان کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، جیسے پاسپورٹ، شناختی کارڈ یا لائسنس وغیرہ کے لیے انہیں بھی محفوظ یا بند مقام میں رکھا جائے، آویزاں نہ کیا جائے۔ اسی طرح کسی کپڑے پر بنی تصاویر کو پھاڑ کر بستر یا تکیے بنا لیے جائیں اور استعمال میں لایا جائے تو جائز ہے۔ بالفاظ دیگر اگر اس قسم کی صورت میں ان کی پامالی ہوتی ہے تو جائز ہیں۔ (4)”کتے مارنے کا حکم“ رسول اللہ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے آغاز میں کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ یہ حکم عام تھا جو ہر قسم کے کتے کے قتل کو شامل تھا، اس لیے کسی قسم کے کتے کو پالنا جائز نہ تھا، پھر آپ نے کالے کتے کے علاوہ باقی کتوں کے قتل سے منع فرما دیا اور شکاری، کھیتی باڑی اور جانوروں کی حفاظت کے لیے کتے پالنے کی اجازت دے دی۔ ان اقسام کے علاوہ تمام کتوں کو ضرورت کے تحت خصوصاً اس وقت قتل کرنا جائز ہے جب وہ ضرر رساں بھی ہوں۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4281