عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ «يا أيها الذين آمنوا أطيعوا اللہ وأطيعوا الرسول»”اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو“(النساء: ۵۹) یہ آیت عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے سلسلے میں اتری، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ میں بھیجا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4199]
وضاحت: ۱؎ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ اس سریہ میں کسی بات پر اپنے ماتحتوں پر ناراض ہو گئے تو آگ جلانے کا حکم دیا، اور جب آگ جلا دی گئی تو سب کو حکم دیا کہ اس میں کود جائیں، اس پر بعض ماتحتوں نے کہا: ہم تو آگ ہی سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہیں تو پھر آگ میں کیوں داخل ہوں، پھر معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے کی بات آئی، تب یہ آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیٰ الامر سے مراد امراء ہیں نہ کہ علماء اور اگر علماء بھی شامل ہیں تو مقصود یہ ہو گا کہ ایسے امور جن کے بارے میں قرآن و حدیث میں واضح تعلیمات موجود نہ ہوں ان میں ان کی طرف رجوع کیا جائے۔ ”ائمہ اربعہ کے بارے میں خاص طور پر اس آیت کے نازل ہونے کی بات تو قیاس سے بہت زیادہ بعید ہے کیونکہ اس وقت تو ان کا وجود ہی نہیں تھا۔ اور ان کی تقلید جامد تو بقول شاہ ولی اللہ دہلوی چوتھی صدی کی پیداوار ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4199
اردو حاشہ: (1) آیت میں ﴿أُولِي الأمْرِ﴾ سے مراد امراء اور حکام ہیں۔ بعض ائمہ کے نزدیک اس سے مراد علماء بھی ہیں، خواہ علماء ہوں یا امراء و حکام سب کی اطاعت قرآن و سنت کے ساتھ مشروط ہے۔ اگر ان کا کوئی حکم شریعت کے مخالف ہو اس میں ان کی اطاعت بجا لانا ناجائز اور حرام ہے۔ (2) اس آیت سے بعض لوگوں نے تقلید شخصی کا مسئلہ کشید کرنے کی جسارت کی ہے۔ حالانکہ آیت مبارکہ سے تو تقلید شخصی کا رد ہوتا ہے، بالخصوص منصوص امور میں تو کسی کی قطعاً کوئی تقلید جائز ہی نہیں، چاہے کوئی شخص کتنا ہی محترم، بزرگ، فقیہ اور بڑا کیوں نہ ہو، نص کے مقابلے میں تو ہر شخص ہی چھوٹا ہے۔ یہی حل امراء کا بھی ہے کہ ان کی اطاعت بھی صرف معروف میں ہے، نہ کہ منکر میں جیسا کہ متعدد بار سابقہ احادیث کے فوائد میں ذکر ہو چکا ہے۔ (3) یہ حدیث متفق علیہ، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔ صحیح بخاری میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ایک دستہ بھیجا اور ایک شخص (حضرت عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو اس دستے کا امیر مقرر فرمایا۔ امیر دستہ نے کسی وجہ سے ناراض ہو کر اپنی معمورین کو حکم دیا کہ لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے اسے آگ لگاؤ اور اس آگ میں کود جاؤ، چنانچہ کچھ لوگ تو آگ میں کودنے پر تیار ہو گئے جبکہ کچھ نے کہا کہ آگ سے بچنے کے لیے تو ہم مسلمان ہوئے ہیں اور نبی ﷺ کی طرف دوڑ کر آئے ہیں اور وہ آگ کے اندر جانے پر تیار نہ ہوئے۔ بالآخر نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ نے اس وقت فرمایا: [ لو دَخَلُوها ما خَرَجُوا منها إلى يَومِ القِيامَةِ ]”اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو روز قیامت تک اسی میں رہتے، اس سے نکل نہ سکتے۔“ اور آپ نے مزید فرمایا: [الطّاعةُ في المعروفِ ]”اطاعت تو صرف معروف (شریعت مطہرہ کے عین مطابق) کاموں میں ہے۔“(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4340) تقلید شخصی کے لیے اس آیت کو پیش کرنے والوں کو بہت بڑی ٹھوکر لگی ہے کیونکہ نزول قرآن کے وقت تو موجودہ دور کے مقلدین کے مجتہدین کا وجود تک دنیا میں نہیں تھا۔ پھر ان کی تقلید کیسی؟ ان مجتہدین کے زمانے میں بھی ان کی تقلید کا قطعاً کوئی رواج تھا اور نہ اس کا تصور ہی۔ بلکہ بدعتِ تقلید تو ہجرت نبوی کے چار سو سال بعد رائج ہوئی جیسا کہ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے حجۃ اللہ البالغۃ میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔ دین اسالم میں تو اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ تمام دینی معاملات میں کسی ایک متعین امتی مجتہد کی تقلید کی جائے چہ جائیکہ اس کو واجب قرار دیا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4199