شریک بن شہاب کہتے ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں صحابہ رسول میں سے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق سوال کروں، تو میری ملاقات عید کے دن ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے ان کے شاگردوں کی جماعت میں ہوئی۔ میں نے ان سے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کا تذکرہ کرتے سنا ہے؟ کہا: ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کانوں سے سنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا، آپ کے پاس کچھ مال آیا، آپ نے اسے تقسیم کیا اور اپنے دائیں اور بائیں جانب کے لوگوں کو دے دیا اور اپنے پیچھے والوں کو کچھ نہیں دیا۔ ایک شخص آپ کے پیچھے سے کھڑا ہوا اور بولا: محمد! آپ نے تقسیم میں انصاف نہیں کیا۔ وہ ایک کالا (سانولا) شخص تھا، جس کے بال منڈے ہوئے تھے اور دو سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا: ”اللہ کی قسم! تم میرے علاوہ کوئی ایسا شخص نہیں پاؤ گے جو مجھ سے زیادہ عادل ہو“۔ پھر فرمایا: ”آخری دور میں کچھ لوگ ہوں گے (شاید) یہ بھی انہیں میں سے ہو گا، وہ قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کی ہنسلی سے نیچے نہ اترے گا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی علامت یہ ہے کہ وہ سر منڈائے ہوں گے ۱؎، وہ ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری شخص مسیح دجال کے ساتھ نکلے گا، لہٰذا جب تم انہیں پاؤ تو قتل کر دو، وہ بد نفس اور تمام مخلوقات میں بدتر ہیں“۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: شریک بن شہاب مشہور نہیں ہیں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4108]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ استدلال قطعا درست نہیں ہے کہ سر منڈانا نعوذباللہ مکروہ ہے کیونکہ کسی چیز کا کسی قوم کے لیے علامت و شناخت بننا یہ اس کے مباح ہونے کے منافی نہیں ہو سکتا، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ایک بچے کو دیکھا کہ اس کے سر کے کچھ حصوں کا بال منڈا ہوا ہے اور کچھ کا چھوڑ دیا گیا ہے تو آپ نے فرمایا: ”اس کا پورا سر مونڈ دو یا پورا سر چھوڑ دو“۔ آپ کا یہ فرمان سر منڈانے کے مباح ہونے کے لیے کافی ہے۔ ۲؎: یعنی مشہور نہیں ہیں بلکہ مقبول ہیں، اور مقبول اس کو کہتے ہیں جس کی دوسرے راوی سے متابعت پائی جائے تو اس کی روایت مقبول ہو گی، ورنہ وہ لین الحدیث ہو گا، یہاں اس حدیث کے اکثر ٹکڑوں کی متابعت موجود ہے، اس لیے حدیث مقبول ہو گی۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4108
اردو حاشہ: (1)”نہیں پاؤ گے“ نبی سے بڑھ کر کوئی انصاف کرنے والا نہیں ہو سکتا، چاہے وہ کتنا بھی انصاف پسند ہو۔ (2)”سر منڈوانا“ سر منڈوانا اگرچہ جائز ہے اور حج میں مستحب ہے مگر کسی جائز چیز کو لازم کر لینا اور اسے شرعی مسئلہ سمجھ لینا اور اسے خواہ مخواہ مستحب بنا لینا قطعاً ناجائز ہے۔ وہ لوگ بھی سر مونڈنے کو اپنا شعار بنا لیں گے اور اسے لازم سمجھیں گے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آپ نے اسے صرف بطور علامت بیان فرمایا ہے۔ اس کی مذمت نہیں فرمائی کیونکہ اگر کسی جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیا جائے مگر اسے شرعی مسئلہ اور افضل خیال نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ بسا اوقات انسان اپنی سہولت کے لیے ایک جائز چیز کو مستقلاً اختیار کر لیتا ہے، جیسے کوئی شخص ہمیشہ قمیص پہنے یا بند جوتا پہنے۔ ظاہر ہے اس میں کوئی قباحت نہیں اور اگر وہ کام افضل اور مستحب ہے تو پھر اس پر دوام بدرجۂ اولیٰ مستحب ہے، جیسے اشراق کی دو رکعتیں وغیرہ۔ (3)”آخری گروہ“ گویا خوارج والی ذہنیت قیامت تک رہے گی۔ (4)”مسیح دجال“ یعنی جھوٹا اور دغا باز مسیح۔ جس طرح ہم اب کسی مدعی نبوت کو جھوٹا نبی کہیں۔ چونکہ وہ مسیح ہونے کا دعویٰ کرے گا بلکہ اس وقت کے یہودی اسے ”مسیح“ تسلیم کر کے اس کی پیروی کریں گے۔ اب بھی یہودی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔ (حالانکہ مسیح علیہ السلام تو کب کے آ چکے) اس لیے اسے مسیح دجال کہا گیا۔ دجال صفت کا صیغہ ہے، کسی کا نام یا لقب نہیں۔ اس کے معنیٰ ہیں: انتہائی دغا باز، جھوٹا اور فراڈی۔ گویا ان الفاظ سے اس کا مسیح ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے، جیسے ”جھوٹا نبی“ کہنے سے کسی کی نبوت ثابت نہیں ہوتی۔ (5)”بدترین لوگ“ کیونکہ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اور مسلمانوں کا قاتل بدترین جہنمی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4108