عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انصار کا ایک شخص اسلام لایا پھر وہ مرتد ہو گیا اور مشرکین سے جا ملا۔ اس کے بعد شرمندہ ہوا تو اپنے قبیلہ کو کہلا بھیجا کہ میرے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو: کیا میرے لیے توبہ ہے؟ اس کے قبیلہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بولے: فلاں شخص (اپنے کئے پر) شرمندہ ہے اور اس نے ہم سے کہا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں: کیا اس کی توبہ ہو سکتی ہے؟ اس وقت یہ آیت اتری: «كيف يهدي اللہ قوما كفروا بعد إيمانهم» سے «غفور رحيم» تک ”اللہ اس قوم کو کیوں کر ہدایت دے گا جو ایمان لانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد کافر ہوئی، اللہ تعالیٰ ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا، ان کی تو یہی سزا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کے تمام فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، جس میں یہ ہمیشہ پڑے رہیں گے، نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی، مگر وہ لوگ جن ہوں نے اس سے توبہ کر لی اور نیک ہو گئے، پس بیشک اللہ غفور رحیم ہے“(آل عمران: ۸۶-۸۹) تو آپ نے اسے بلا بھیجا اور وہ اسلام لے آیا۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4073]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4073
اردو حاشہ: (1) باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت واضح ہے کہ مرتد کی توبہ قابل قبول ہے۔ (توبہ نہ کرنے کی صورت میں اس کی سزا قتل ہے)۔ (2) حدیث شریف سے بعض آیاتِ قرآنی کا سبب نزول معلوم ہوتا ہے۔ (3) اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ ارتداد کی وجہ سے سابقہ تمام اعمالِ صالح باطل اور ضائع ہو جاتے ہیں۔ (4) خالص توبہ کرنے سے تمام برے اعمال اور کفریہ و شرکیہ عقائد مٹ جاتے ہیں، خواہ جس نوعیت ہی کے ہوں۔ (5) یہ حدیث شریف اللہ تعالیٰ کی کمال مہربانی، وافر فضل و کرم اور وسعتِ معافی پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ رب العزت سے عمداً اعراض کرتا ہے، پھر توبہ کرتا ہے تو اسے بھی معافی مل جاتی ہے۔ و اللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4073