1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب المزارعة
کتاب: مزارعت (بٹائی پر زمین دینے) کے احکام و مسائل
0. بَابُ : 6 - باب شَرِكَةِ الأَبْدَانِ
0. باب: صنعت و کاریگری میں شرکت کا بیان۔
حدیث نمبر: Q3969-3
وَقَالَ:" إِذَا دَفَعَ رَجُلٌ إِلَى رَجُلٍ مَالًا قِرَاضًا فَأَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ عَلَيْهِ بِذَلِكَ كِتَابًا كَتَبَ هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ طَوْعًا مِنْهُ فِي صِحَّةٍ مِنْهُ وَجَوَازِ أَمْرِهِ لِفُلَانِ بْنِ فُلَانٍ أَنَّكَ دَفَعْتَ إِلَيَّ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا مِنْ سَنَةِ كَذَا عَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ قِرَاضًا عَلَى تَقْوَى اللَّهِ فِي السِّرِّ وَالْعَلَانِيَةِ وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ عَلَى أَنْ أَشْتَرِيَ بِهَا مَا شِئْتُ مِنْهَا كُلَّ مَا أَرَى أَنْ أَشْتَرِيَهُ وَأَنْ أُصَرِّفَهَا وَمَا شِئْتُ مِنْهَا فِيمَا أَرَى أَنْ أُصَرِّفَهَا فِيهِ مِنْ صُنُوفِ التِّجَارَاتِ، وَأَخْرُجَ بِمَا شِئْتُ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُ، وَأَبِيعَ مَا أَرَى أَنْ أَبِيعَهُ مِمَّا أَشْتَرِيهِ بِنَقْدٍ رَأَيْتُ أَمْ بِنَسِيئَةٍ وَبِعَيْنٍ رَأَيْتُ أَمْ بِعَرْضٍ عَلَى أَنْ أَعْمَلَ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ كُلِّهِ بِرَأْيِي، وَأُوَكِّلَ فِي ذَلِكَ مَنْ رَأَيْتُ وَكُلُّ مَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ بَعْدَ رَأْسِ الْمَالِ الَّذِي دَفَعْتَهُ الْمَذْكُورِ إِلَيَّ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فَهُوَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ نِصْفَيْنِ لَكَ مِنْهُ النِّصْفُ بِحَظِّ رَأْسِ مَالِكَ وَلِي فِيهِ النِّصْفُ تَامًّا بِعَمَلِي فِيهِ، وَمَا كَانَ فِيهِ مِنْ وَضِيعَةٍ فَعَلَى رَأْسِ الْمَالِ، فَقَبَضْتُ مِنْكَ هَذِهِ الْعَشَرَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ الْوُضْحَ الْجِيَادَ مُسْتَهَلَّ شَهْرِ كَذَا فِي سَنَةِ كَذَا وَصَارَتْ لَكَ فِي يَدِي قِرَاضًا عَلَى الشُّرُوطِ الْمُشْتَرَطَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ أَقَرَّ فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُطْلِقَ لَهُ أَنْ يَشْتَرِيَ وَيَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ كَتَبَ، وَقَدْ نَهَيْتَنِي أَنْ أَشْتَرِيَ وَأَبِيعَ بِالنَّسِيئَةِ".
(مؤلف) کہتے ہیں: جب کوئی آدمی کسی آدمی کو کچھ مال مضاربت کے طور پردے پھر اس کا معاہدہ لکھنا چاہے تو اس طرح لکھے: یہ وہ تحریر ہے جسے فلاں بن فلاں نے اپنی خوشی سے، تندرستی کی حالت میں اور اس حال میں جب معاملات جاری ہوتے ہیں، فلاں بن فلاں کے لیے لکھا ہے: آپ نے مجھے فلاں سال کے فلاں مہینے کے شروع میں دس ہزار کھرے اور چوکھے درہم بہ طور مضاربت دیے جن کا وزن سات (مثقال) ہے۔ اس شرط پر کہ میں ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہوں گا اور اس امانت کو ادا کروں گا، اور اس شرط پر کہ ان سے میں وہ سب کچھ خریدوں گا جو میں چاہوں گا اور وہاں خرچ کروں گا جہاں میں خرچ کرنا مناسب سمجھوں گا، یعنی مختلف تجارتوں میں لگاؤں گا، جہاں اور جتنا مناسب سمجھوں گا اس میں سے لے کر جاؤں گا اور جو کچھ خریدوں گا اس میں سے نقد یا ادھار جب مناسب سمجھوں گا بیچوں گا، مال کی قیمت عینی چیز لوں گا یا پھر اس قیمت کا دوسرا مال، ان سب باتوں میں شرط یہ ہے کہ میں اپنی صواب دید سے کام کروں گا، اور ان تمام امور میں میں جسے مناسب سمجھوں گا اپنا وکیل بناؤں گا، اور اس اصل پونجی سے جو آپ نے مجھے دی ہے اور جس کی معینہ مقدار اس عہد نامے میں مذکور ہے، اس میں اللہ تعالیٰ جو منافع اور جو بڑھوتری عطا کرے گا وہ میرے اور آپ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو گا، اس کا آدھا آپ کے لیے آپ کے رأس المال (اصل پونجی) کی وجہ سے اور میرے لیے اس کا آدھا میری محنت اور میرے کام کی وجہ سے ہو گا، اور جو نقصان ہو گا تو وہ رأس المال (اصل پونچی) میں سے ہو گا۔ تو میں نے یہ دس ہزار کھرے چوکھے درہم فلاں سال کے فلاں مہینہ کے شروع میں آپ سے اپنے قبضے میں لیے اور یہ میرے ہاتھ میں آپ کے لیے شرکت و مضاربت کے طور پر ہیں، ان شرطوں کے ساتھ جو اس معاہدہ میں لکھی گئی ہیں اور فلاں اور فلاں نے انہیں منظور کیا ہے۔ اور جب صاحب مال چاہے کہ وہ ادھار خرید و فروخت نہ کرے تو اس طرح لکھے گا: اور آپ نے مجھے ادھار خرید و فروخت کرنے سے منع کیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: Q3969-3]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «t»

وضاحت: ۱؎: اسی طرح دیگر شرائط بھی اگر صاحب مال چاہے تو طے کر سکتا ہے، مثلاً: اس مال سے صرف فلاں سامان کی تجارت کی جا سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ہاں جو طے ہو لکھا ضرور جائے، یہی بات اگلے معاملہ میں بھی ہے۔

قال الشيخ زبير على زئي:

حدیث نمبر: Q3969-2
هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ فِي صِحَّةِ عُقُولِهِمْ وَجَوَازِ أَمْرِهِمُ اشْتَرَكُوا شَرِكَةَ عِنَانٍ لاَ شَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ بَيْنَهُمْ فِي ثَلاَثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وُضْحًا جِيَادًا وَزْنَ سَبْعَةٍ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَشْرَةُ آلاَفِ دِرْهَمٍ خَلَطُوهَا جَمِيعًا فَصَارَتْ هَذِهِ الثَّلاَثِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ فِي أَيْدِيهِمْ مَخْلُوطَةً بِشَرِكَةٍ بَيْنَهُمْ أَثْلاَثًا عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِيهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَأَدَاءِ الأَمَانَةِ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ إِلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ وَيَشْتَرُونَ جَمِيعًا بِذَلِكَ وَبِمَا رَأَوْا مِنْهُ اشْتِرَاءَهُ بِالنَّقْدِ وَيَشْتَرُونَ بِالنَّسِيئَةِ عَلَيْهِ مَا رَأَوْا أَنْ يَشْتَرُوا مِنْ أَنْوَاعِ التِّجَارَاتِ وَأَنْ يَشْتَرِيَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى حِدَتِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِذَلِكَ وَبِمَا رَأَى مِنْهُ مَا رَأَى اشْتِرَاءَهُ مِنْهُ بِالنَّقْدِ وَبِمَا رَأَى اشْتِرَاءَهُ عَلَيْهِ بِالنَّسِيئَةِ يَعْمَلُونَ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا وَيَعْمَلُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُنْفَرِدًا بِهِ دُونَ صَاحِبِهِ بِمَا رَأَى جَائِزًا لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ عَلَى نَفْسِهِ وَعَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ فِيمَا اجْتَمَعُوا عَلَيْهِ وَفِيمَا انْفَرَدُوا بِهِ مِنْ ذَلِكَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ دُونَ الآخَرَيْنِ فَمَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ مِنْ قَلِيلٍ وَمِنْ كَثِيرٍ فَهُوَ لاَزِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْ صَاحِبَيْهِ وَهُوَ وَاجِبٌ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا وَمَا رَزَقَ اللَّهُ فِي ذَلِكَ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ عَلَى رَأْسِ مَالِهِمُ الْمُسَمَّى مَبْلَغُهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ فَهُوَ بَيْنَهُمْ أَثْلاَثًا وَمَا كَانَ فِي ذَلِكَ مِنْ وَضِيعَةٍ وَتَبِعَةٍ فَهُوَ عَلَيْهِمْ أَثْلاَثًا عَلَى قَدْرِ رَأْسِ مَالِهِمْ وَقَدْ كُتِبَ هَذَا الْكِتَابُ ثَلاَثَ نُسَخٍ مُتَسَاوِيَاتٍ بِأَلْفَاظٍ وَاحِدَةٍ فِي يَدِ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَاحِدَةٌ وَثِيقَةً لَهُ أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ‏.‏‏
یہ وہ عہد نامہ ہے جس میں فلاں، فلاں اور فلاں کی شرکت کا بیان ہے۔ جو صحت و حواس کی درستگی میں اور معاملات کے نافذ ہونے کی حالت میں لکھی گئی ہے۔ یہ تینوں شرکت عنان کی بنیاد پر نہ کہ شرکت مفاوضت پر شریک ہوئے ہیں، تیس ہزار درہم میں جو سب کے سب کھرے اور عمدہ ہیں جن میں سے ہر درہم سات مثقال کے وزن کے برابر ہے۔ ہر شخص کے دس ہزار درہم ہیں اور تینوں کو ملا دینے پر کل تیس ہزار درہم ہوئے جس کے یہ تینوں مالک ہیں۔ ہر ایک ایک تہائی حصے کا شریک ہے، اس شرط پر کہ یہ سب کے سب اللہ کا خوف رکھنے اور اس امانت کو ادا کرنے کی نیت کے ساتھ محنت کریں گے، اور سب مل کر اس سے جو چاہیں گے خریدیں گے، جو چاہیں گے نقد خریدیں گے اور جو چاہیں گے ادھار خریدیں گے اور جس قسم کی تجارت چاہیں کریں گے، اور ان تینوں میں سے ہر شخص بغیر دوسرے کی شرکت کے جو چاہے نقد یا ادھار خریدے، اس پوری رقم میں تینوں شریک مل کر ایک ساتھ معاملہ کریں یا ہر ایک تنہا ہو کر معاملہ کرے، جو معاملہ سب کریں، وہ سب پر لازم اور نافذ ہو گا، کرنے والے پر بھی اور اس کے دونوں ساتھیوں پر بھی اور جو کوئی اکیلا کرے وہ بھی اس کے اوپر اور اس کے دونوں ساتھیوں پر لازم ہو گا، غرضیکہ ہر معاملہ تھوڑا ہو یا زیادہ سب پر نافذ ہو گا خواہ ایک کا کیا ہوا ہو یا سب کا۔ پھر اللہ تعالیٰ جو نفع دے گا وہ اصل پونجی کے مطابق تین حصے کر کے تینوں شریکوں میں تقسیم ہو گا اور اس میں جو نقصان (گھاٹا) ہو گا وہ سب پر برابر برابر تہائی اصل پونجی کے مطابق ہو گا۔ ایک ہی عبارت اور لفظوں کی اس تحریر (معاہدہ) کی تین کاپیاں کی گئیں، ہر شریک کو ایک ایک کاپی دے دی گئی تاکہ بطور سند اپنے پاس رکھے۔ اس بات پر فلاں فلاں اور فلاں یعنی تینوں شریکوں نے اقرار کیا۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: Q3969-2]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «t»

وضاحت: شرکت عنان یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ لوگ اجتماعی شکل میں کسی کام میں مالی و جسمانی تعاون یکساں طور پر دیں اور نفع میں برابر کے شریکوں اور ان میں سے اگر کسی کا مالی یا جسمانی تعاون زیادہ ہے تو نفع میں اس کا حصہ بھی زیادہ ہو گا۔

قال الشيخ زبير على زئي:

حدیث نمبر: Q3969
قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى ‏‏{‏‏يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ‏‏}‏‏ هَذَا مَا اشْتَرَكَ عَلَيْهِ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ بَيْنَهُمْ شَرِكَةَ مُفَاوَضَةٍ فِي رَأْسِ مَالٍ جَمَعُوهُ بَيْنَهُمْ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ وَنَقْدٍ وَاحِدٍ وَخَلَطُوهُ وَصَارَ فِي أَيْدِيهِمْ مُمْتَزِجًا لاَ يُعْرَفُ بَعْضُهُ مِنْ بَعْضٍ وَمَالُ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِي ذَلِكَ وَحَقُّهُ سَوَاءٌ عَلَى أَنْ يَعْمَلُوا فِي ذَلِكَ كُلِّهِ وَفِي كُلِّ قَلِيلٍ وَكَثِيرٍ سَوَاءً مِنَ الْمُبَايَعَاتِ وَالْمُتَاجَرَاتِ نَقْدًا وَنَسِيئَةً بَيْعًا وَشِرَاءً فِي جَمِيعِ الْمُعَامَلاَتِ وَفِي كُلِّ مَا يَتَعَاطَاهُ النَّاسُ بَيْنَهُمْ مُجْتَمِعِينَ بِمَا رَأَوْا وَيَعْمَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى انْفِرَادِهِ بِكُلِّ مَا رَأَى وَكُلِّ مَا بَدَا لَهُ جَائِزٌ أَمْرُهُ فِي ذَلِكَ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ وَعَلَى أَنَّهُ كُلُّ مَا لَزِمَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ عَلَى هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمَوْصُوفَةِ فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ حَقٍّ وَمِنْ دَيْنٍ فَهُوَ لاَزِمٌ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ مَعَهُ فِي هَذَا الْكِتَابِ وَعَلَى أَنَّ جَمِيعَ مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ فِي هَذِهِ الشَّرِكَةِ الْمُسَمَّاةِ فِيهِ وَمَا رَزَقَ اللَّهُ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فِيهَا عَلَى حِدَتِهِ مِنْ فَضْلٍ وَرِبْحٍ فَهُوَ بَيْنَهُمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ وَمَا كَانَ فِيهَا مِنْ نَقِيصَةٍ فَهُوَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا بِالسَّوِيَّةِ بَيْنَهُمْ وَقَدْ جَعَلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ وَفُلاَنٍ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ الْمُسَمِّينَ فِي هَذَا الْكِتَابِ مَعَهُ وَكِيلَهُ فِي الْمُطَالَبَةِ بِكُلِّ حَقٍّ هُوَ لَهُ وَالْمُخَاصَمَةِ فِيهِ وَقَبْضِهِ وَفِي خُصُومَةِ كُلِّ مَنِ اعْتَرَضَهُ بِخُصُومَةٍ وَكُلِّ مَنْ يُطَالِبُهُ بِحَقٍّ وَجَعَلَهُ وَصِيَّهُ فِي شَرِكَتِهِ مِنْ بَعْدِ وَفَاتِهِ وَفِي قَضَاءِ دُيُونِهِ وَإِنْفَاذِ وَصَايَاهُ وَقَبِلَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِهِ مَا جَعَلَ إِلَيْهِ مِنْ ذَلِكَ كُلِّهِ أَقَرَّ فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ وَفُلاَنٌ‏.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «يا أيها الذين آمنوا أوفوا بالعقود» اے ایمان والو! اپنے وعدے پورے کرو (المائدة: 1) یہ وہ تحریر (عہد نامہ) ہے جس کی رو سے فلاں فلاں، فلاں اور فلاں بطور مفاوضہ رأس المال (اصل پونجی) میں شریک ہوئے ہیں جس کو سب لوگوں نے جمع کیا تھا جو ایک ہی قسم کا مال اور ایک ہی سکے کا تھا، اسے انہوں نے ملا دیا اور اب مل کر سب کے قبضے میں اس طرح آ گیا کہ اب کسی کا حصہ پہنچانا نہیں جاتا، اور اب سب کا مال اور حصہ برابر ہے، اس شرط پر کہ وہ سب مل کر محنت کریں گے، اس میں بھی اور اس کے علاوہ میں بھی خواہ کم ہو یا زیادہ، ہر طرح کے معاملات اور لین دین خواہ ادھار ہوں یا نقد، خرید رہے ہوں یا بیچ رہے ہوں، ہر طرح کے معاملات جسے لوگ کرتے ہیں، سب مل کر کریں یا الگ الگ، مگر ہر ایک کا معاملہ اس کے شریکوں پر جائز و نافذ ہو گا، اور جو اس شرکت کی رو سے کسی شریک پر حق یا قرض لازم ہو تو وہ ہراس شخص پر لازم ہو گا جن کا نام اس تحریر (معاہدہ) میں درج ہے اور اللہ تعالیٰ جو نفع یا بچت دے گا وہ سب آپس میں برابر تقسیم ہو گی اور جو نقصان (گھاٹا) ہو گا وہ بھی سب پر برابر برابر تقسیم ہو گا، ان چاروں اشخاص میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اپنے ساتھیوں میں سے جن کے نام اس عہد نامہ میں لکھے ہیں اپنا اپنا وکیل (ایجنٹ) بنایا، ہر ایک کو حق کے مطالبے کے لیے، خصومت کرنے (عدالت میں مقدمہ دائر کرنے) کے لیے اور وصول کرنے کے لیے یا کوئی جو کچھ مطالبہ کرے اس کا جواب دینے کے لیے اور اس کو اپنا وصی بنایا اس شرکت میں اپنے مرنے کے بعد اپنے قرضوں کو ادا کرنے اور وصیتوں کو پورا کرنے کے لیے۔ ہر ایک نے ان چاروں میں سے ایک دوسرے کے کام قبول کیے جو اسے سونپے گئے۔ ان سب باتوں پر فلاں اور فلاں اور فلاں اور فلاں نے عہد و اقرار کیا۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: Q3969]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «t»

وضاحت: شرکت مفاوضہ یہ ہے کہ دو آدمی کی ساری ملکیت دونوں کے مابین اس طرح ہو کہ دونوں ایک دوسرے کی وکالت اور کفالت میں برابر کا درجہ رکھتے ہوں، یعنی ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اس مشترکہ ملکیت میں اپنا وکیل اور کفیل (ایجنٹ) سمجھتا ہو۔

قال الشيخ زبير على زئي:

حدیث نمبر: 3969
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" اشْتَرَكْتُ أَنَا وَعَمَّارٌ وَسَعْدٌ يَوْمَ بَدْرٍ فَجَاءَ سَعْدٌ بِأَسِيرَيْنِ وَلَمْ أَجِئْ أَنَا وَلَا عَمَّارٌ بِشَيْءٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں عمار اور سعد رضی اللہ عنہما بدر کی لڑائی کے روز شریک (کار) ہوئے تو سعد دو قیدی لے کر آئے، نہ میں کچھ لایا اور نہ ہی عمار کچھ لے کر آئے۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3969]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 30 (3388)، سنن ابن ماجہ/التجارات 63 (2288)، (تحفة الأشراف: 9616)، ویأتی عند المؤلف فی البیوع 103 (برقم: 4701) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابو اسحاق سبیعی‘‘ مختلط ہو گئے تھے، اور ”ابو عبیدہ“ کا اپنے باپ ”ابن مسعود رضی الله عنہ‘‘ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت: ۱؎: شرکت ابدان یہ ہے کہ دو آدمی کسی کام کے انجام دینے میں اس طرح شریکوں کہ ان دونوں کی محنت سے اس کام میں جو بھی فائدہ حاصل ہو گا اس میں وہ دونوں برابر برابر کے حصہ دار ہوں گے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (3388) ابن ماجه (2288) الحديث الآتي (4701) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 350

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3969 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3969  
اردو حاشہ:
یہ روایت ضعیف ہے‘ تاہم شرکت ابدان کی وضاحت کچھ اس طرح ہے کہ دو (یا زیادہ) آدمی ایک کام مل کر کریں اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی آپس میں برابر تقسیم کرلیں اگرچہ ممکن ہے ایک آدمی زیادہ کام کرے دوسرا کم‘ جیسے مذکورہ روایت میں ذکر ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کودوغلام ملے‘ دوسرے دوکو کچھ نہ مل سکا مگر انہوں نے دوقیدی تینوں میں برابر بانٹ لیے۔ (یعنی ان کی قیمت یا ان کا فدیہ) اسی طرح دومستری یا مزدور یا دودرزی اکٹھے کام کریں اور مزدوری برابر بانٹ لیں۔ اسے شرکت ضائع بھی کہتے ہیں۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ اس کی بنیاد ہمدردی اور مروت ہے کہ کوئی بھائی کمزور ہونے کی بنا پر معیشت سے محروم نہ رہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3969