ابن عون کہتے ہیں کہ محمد (محمد بن سیرین) کہا کرتے تھے: میرے نزدیک زمین مضاربت کے مال کی طرح ہے، تو جو کچھ مضاربت کے مال میں درست ہے، وہ زمین میں بھی درست ہے، اور جو مضاربت کے مال میں درست نہیں، وہ زمین میں بھی درست نہیں، وہ اس بات میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اپنی زمین کاشتکار کے حوالے کر دیں اس شرط پر کہ وہ (کاشتکار) خود اپنے آپ، اس کے لڑکے، اس کے دوسرے معاونین اور گائے بیل اس میں کام کریں گے اور وہ اس میں کچھ بھی خرچ نہیں کرے گا بلکہ تمام مصارف زمین کے مالک کی طرف سے ہوں گے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3960]
وضاحت: ۱؎: بٹائی کی یہ ایک جائز صورت ہے، واجب نہیں بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ زمین کا مالک کچھ بھی خرچ نہ کرے، تمام اخراجات کاشتکار کرے اور آدھی پیداوار کا حقدار ہو جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3960
اردو حاشہ: حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ کا مزارعت (بٹائی) کو مضاربت پر قیاس کرنا بالکل صحیح ہے۔ دونوں میں کوئی فریق نہیں۔ مضاربت میں ایک شخص دوسرے کو رقم حوالے کرتا ہے کہ اس کے ساتھ تجارت کرو۔ وقت مقررہ کے بعد اس کا نفع فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے اور مزارعت میں ایک شخص اپنی زمین دوسرے کے سپرد کرتا ہے کہ اس میں کاشت کاری کرو۔ پیداوار کو فلاں نسبت سے تقسیم کرلیں گے۔ اصل رقم اور زمین مالکوں کو واپس مل جاتی ہے۔ دونوں میں سرمو فرق نہیں‘ البتہ حضرات ابن سیرین کا یہ فرمانا کہ ”مزارع صرف کام کرے‘ اخراجات سب کے سب مالک زمین کے ذمہ ہو“ ضروری نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی شرط صراحتاً مذکور نہیں‘ لہٰذا فریقین جو بھی طے کرلیں‘ جائز ہونا چاہیے‘ البتہ کسی پر ظلم نہ ہو۔ (دیکھیے سابقہ حدیث)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3960