عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الأيمان والنذور/حدیث: 3863]
وضاحت: ۱؎: قسم کے کفارے کا ذکر سورۂ مائدہ کی اس آیت میں ہے «لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم ولكن يؤاخذكم بما عقدتم الأيمان فكفارته إطعام عشرة مساكين من أوسط ما تطعمون أهليكم أو كسوتهم أو تحرير رقبة فمن لم يجد فصيام ثلاثة أيام ذلك كفارة أيمانكم إذا حلفتم واحفظوا أيمانكم كذلك يبين الله لكم آياته لعلكم تشكرون»”اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا، لیکن مواخذہ اس پر فرماتا ہے کہ تم جن قسموں کو مضبوط کر دو۔ اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا دینا ہے اوسط درجے کا جو اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو، یا ان کو کپڑا دینا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے اور جس کو مقدور نہ ہو تو تین دن کے روزے ہیں۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھا لو اور اپنی قسموں کا خیال رکھو! اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے واسطے اپنے احکام بیان فرماتا ہے تاکہ تم شکر کرو“(سورة المائدة: 89)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3863
اردو حاشہ: قسم کا کفارہ قرآن مجید میں صراحتاً مذکور ہے اور وہ ہے: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا کپڑے پہنانا یا غلام کی آزادی۔ اگر ان تینوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو پھر تین روزے رکھنا ہوں گے۔ اور یہی نذر کا کفارہ ہے۔ کفارے میں ترتیب ضروری نہیں بلکہ جو نسا عمل آسانی کا باعث ہو کیا جا سکتا ہے۔ اگر نیک کام کی نذر ہو اور اسے پورا کرنے کی استطاعت ہو تو نذر ہی پوری کرنی ہوگی۔ کفارہ اس صورت میں ہے جب نذر پوری کرنا ممکن نہ ہو یا نذر معصیت کی ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3863
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1528
´غیر متعین نذر کے کفارہ کا بیان۔` عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غیر متعین نذر کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1528]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی جس نے کوئی نذر مانی اور اس کا نام نہیں لیا یعنی صرف اتنا کہاکہ اگر میری مراد پوری ہوجائے تومجھ پرنذرہے تو اس کا کفار ہ قسم کا کفارہ ہے۔
نوٹ: (لیکن 'لم یسم' کا لفظ صحیح نہیں ہے، اور یہ مؤلف کے سوا کسی کے یہاں ہے بھی نہیں (جبکہ ابوداود نے اسی کا لحاظ رکھ کر ”من نذرنذراً لم یسم“ کا باب باندھاہے) یہ مؤلف کے راوی ”محمد مولیٰ المغیرہ“ کا اضافہ ہے جو خود مجہول راوی ہیں، یہ دیگرکی سندوں میں نہیں ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1528
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4253
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نذر کا کفارہ، قسم والا کفارہ ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4253]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، نذر کا حکم قسم والا ہے، اس لیے اس کا کفارہ بھی قسم والا ہے۔ جامع الصغیر میں ہے، (النذرة يمين) نذر قسم ہے، (وكفارته كفارة اليمين) اور اس کا کفارہ قسم والا ہے۔ بعض روایات میں ہے، (كفارة النذر اذا لم يسم كفارة اليمين) نذر اگر متعین نہ ہو تو اس کا کفارہ قسم والا ہے، اس لیے اس حدیث کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر کسی نے کہا، لِلهِ عَلَی نذر، اللہ کی مجھ پر نذر ہے، تو اس پر کفارہ یمین لازم ہو گا، اور امام نووی کے نزدیک اس سے مراد نذر لجاج ہے، جس میں تعلیق ہوتی ہے، مثلا کوئی انسان کہتا ہے، اگر میں زید سے ہم کلام ہوں تو مجھ پر اللہ کے لیے حج ہو گا، تو شوافع کے نزدیک اگر وہ زید سے گفتگو کر کے حانث ہو جاتا ہے، یعنی قسم توڑ دیتا ہے، کیونکہ یہ نذر، قسم کے ہیں، تو اب اس کو اختیار ہے نذر پوری کرتے ہوئے حج کرے یا قسم والا کفارہ ادا کرے، احناف کا بھی یہی موقف ہے، اگر نذر معصیت کی ہے، تو اس کے بارے میں ائمہ کے اقوال گزر چکے ہیں، اگر ایسی چیز کے بارے میں نذر مانی ہے، جو اس کے بس یا طاقت سے باہر ہے، تو اس پر قسم والا کفارہ ہے، لیکن اگر بیت اللہ پیدل جانے کی نذر مانی ہے، یا بیٹا ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو اکثر ائمہ کے نزدیک اس پر دم لازم ہو گا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنن ابی داود میں مرفوع حدیث مروی ہے کہ جس نے غیر متعین نذر مانی، اس پر قسم والا کفارہ ہے، اور جس نے معصیت کی نذر مانی، اس پر بھی قسم والا کفارہ ہے، اور جس نے طاقت سے بڑھ کر نذر مانی، اس کا کفارہ بھی قسم والا ہے، اور سنن ابن ماجہ میں ہے، جس نے مقدرت و طاقت کے مطابق نذر مانی، وہ اسے پورا کرے۔ (تکملہ، ج 2، ص 174)