عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب آیت کریمہ: «ولا تقربوا مال اليتيم إلا بالتي هي أحسن»”یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے سے جو کہ مستحسن ہو (یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے)“(الأنعام: ۱۵۲) اور «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما»”اور جو لوگ یتیموں کا مال ظلم و زیادتی کر کے کھاتے ہیں (وہ دراصل مال نہیں کھاتے وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھر رہے ہیں“(النساء: ۱۰) نازل ہوئی تو لوگ یتیموں کے مال کے قریب جانے (اور ان کی حفاظت کی ذمہ داریاں سنبھالنے) اور ان کا مال کھانے سے بچنے لگے۔ تو یہ چیز مسلمانوں پر شاق (دشوار) ہو گئی، چنانچہ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی جس پر اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ: «ويسألونك عن اليتامى قل إصلاح لهم خير» سے «لأعنتكم»”اور تم سے یتیموں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئیے کہ ان کی خیر خواہی بہتر ہے اگر تم ان کا مال اپنے مال میں ملا بھی لو تو وہ تمہارے بھائی ہیں۔ بدنیت اور نیک نیت ہر ایک کو اللہ خوب جانتا ہے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشقت میں ڈال دیتا، یقیناً اللہ تعالیٰ غلبہ اور حکمت والا ہے“(البقرہ: ۲۲۰) تک نازل فرمائی ۳؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3699]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3699
اردو حاشہ: محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قراردیتے ہوئے لکھا ہے کہ معجم کبیر کی حدیث اس سے کفایت کرتی ہے کیونکہ اس کی سند حسن ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ حدیث محقق کتاب کے نزدیک بھی قابل عمل اور قابل حجت ہے‘ نیز دیگر محققین نے بھی شواہد ومتابعات کی بنا پر اس روایت کو قابل حجت قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي:30/181)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3699