شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے عرض کیا: میری ماں نے وصیت کی ہے کہ ان کی طرف سے ایک غلام آزاد کر دیا جائے اور میرے پاس حبشی نسل کی ایک لونڈی ہے، اگر میں اسے ان کی طرف سے آزاد کر دوں تو کیا وہ کافی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ”جاؤ اسے ساتھ لے کر آؤ“ چنانچہ میں اسے ساتھ لیے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہو گیا، آپ نے اس سے پوچھا: ”تمہارا رب (معبود) کون ہے؟“ اس نے کہا: اللہ، آپ نے (پھر) اس سے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ نے فرمایا: ”اسے آزاد کر دو، یہ مسلمان عورت ہے“۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3683]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3683
اردو حاشہ: (1) معلوم ہوا کہ مومن کو آزاد کرنا افضل ہے‘ نیز غلام‘ لونڈی کی آزادی برابر ہے۔ (2) جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرے تو اس کے اقرار کو تسلیم کیا جائے گا۔ اس سے مزید کسی دلیل کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3683