عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے (تو تم سمجھ لو) وارث کے لیے وصیت نہیں ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3671]
الله أعطى كل ذي حق حقه لا وصية لوارث الولد للفراش وللعاهر الحجر من ادعى إلى غير أبيه انتمى إلى غير مواليه رغبة عنهم فعليه لعنة الله لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا
الله قسم لكل وارث نصيبه من الميراث لا يجوز لوارث وصية الولد للفراش للعاهر الحجر من ادعى إلى غير أبيه تولى غير مواليه فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه صرف ولا عدل أو قال عدل ولا صرف
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3671
اردو حاشہ: ابتدائی دور میں اولاد وارث بنتی تھی۔ ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کی جاتی تھی۔ ان کا حق مقرر نہیں تھا۔ اسی دور میں یہ آیت اتری: ﴿كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ…بِالْمَعْرُوفِ﴾”تم پر فرض کردیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت آنے لگے تو‘ اگر وہ مال چھوڑے جارہا ہے تو والدین رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء میں والدین‘ اولاد، خاوند‘ بیوی اور بہن بھائیوں کے حصے مقرر فرما دیے‘ لہٰذا اب وصیت کی ضرورت نہ رہی۔ شاذ و نادر طور پر اگر کسی کے لواحقین میں کئی نادار شخص غیر وارث ہے تو وہ اس کے لیے وصیت کرسکتا ہے لیکن وارث کے حق میں نہ مقررہ حد سے زائد کی وصیت کی جا سکتی ہے نہ کم کی۔ جو مقرر کردیا گیا ہے‘ وہی ملے گا۔ اس بات کو اس حدیث نے بیان کردیا۔ اب چاہے یوں کہہ لیں کہ اس حدیث نے پہلی آیت کو منسوخ کردیا اور چاہے تو یوں کہہ لیں کہ پہلی آیت منسوخ تو مقررہ حصوں والی آیت نے کیا ہے لیکن نسخ کا بیان اس حدیث میں ہے۔ بہر حال مسئلہ متفق علیہ ہے کہ نہ وارث کا حصہ بڑھایا جاسکتا ہے‘ نہ کم کیا جاسکتا ہے۔ محروم کرنا تو دور کی بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3671
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 24
´حیوانات کا لعاب دہن` «. . . وعن عمرو بن خارجة رضي الله عنه قال: خطبنا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم بمنى وهو على راحلته، ولعابها يسيل على كتفي . . .» ”. . . سیدنا عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر مقام منی میں ہمیں خطاب فرمایا اور اس اونٹنی کا لعاب دہن میرے کندھوں پر بہتا تھا . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 24]
لغوی تشریح: «بِمِنٌى» تنوین کے ساتھ ہے۔ اس سے مراد مکہ مکرمہ کے قریب وہ جگہ ہے جہاں قربانی کے جانور ذبح کیے جاتے ہیں جو کہ حج کے مشہور ترین شعائر میں سے ایک ہے۔ «لُعَابهَُا»”لام“ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ منہ سے پانی کی صورت میں جو رال ٹپکتی ہے۔
فائدہ: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ ان حیوانات کا لعاب دہن پاک ہے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔
راوی حدیث: SR سیدنا عمرو بن خارجہ بن منتفق اسدی رضی اللہ عنہ ER بقول بعض اشعری اور بقول شخصے انصاری اور کسی کے بقول جمع قبیلے سے ہیں۔ ابوسفیان کے حلیف تھے۔ ان کے اشعری ہونے کے بارے میں زیادہ شہرت ہے۔ مشہور صحابی ہیں۔۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔۔ شام میں سکونت اختیار کی۔ ان کی حدیث اہل بصرہ سے مروی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 24
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3672
´وارث کے لیے وصیت باطل ہے۔` عمرو بن خارجہ رضی الله عنہ نے ذکر کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ میں موجود تھے جو آپ اپنی سواری پر بیٹھ کر دے رہے تھے، سواری جگالی کر رہی تھی اور اس کا لعاب بہہ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میراث سے ہر انسان کا حصہ تقسیم فرما دیا ہے تو کسی وارث کے لیے وصیت کرنا درست اور جائز نہیں ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3672]
اردو حاشہ: (1)”لعاب گر رہاتھا“ گویا یہ اونٹنی کی گردن کے نیچھے کھڑے تھے۔ ممکن ہے ادباً مہارپکڑ رکھی ہو۔ (2)”ہرشخص کو“ یعنی جسے وراثت کا اہل سمجھا۔ اکثر ورثاء کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ بعض ورثاء کے حصوں کا ذکر احادیث میں ہے‘ مثلاً: دادی‘ نانی کاحصہ۔ ان سب حصوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہی ہے کیونکہ حدیث بھی تو وحی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3672
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2712
´وارث کے لیے وصیت ناجائز ہے۔` عمرو بن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس حال میں خطبہ دیا کہ آپ اپنی سواری (اونٹنی) پر تھے، وہ جگالی کر رہی تھی، اور اس کا لعاب میرے مونڈھوں کے درمیان بہہ رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر وارث کے لیے میراث کا حصہ متعین کر دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی، اور زنا کرنے والے کے لیے پتھر ہے، جو شخص اپنے باپ دادا کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کا دعویٰ کرے یا (غلام) اپنے مالک کے علاوہ دوسرے شخص کو مالک بنائے، تو اس پر اللہ تعالی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2712]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ترکے میں جن رشتے داروں کا حصہ اللہ تعالی نے مقرر فرمایا دیا ہے انہیں ان کا مقررہ حصہ ضرور ملنا چاہیے۔
(2) جن رشتے داروں کا وراثت میں حصہ نہیں ان کے حق میں مناسب وصیت کرنا بہترہے۔
(3) بعض لوگ یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ لے کر شریعت کے نظام میراث پر اعتراض کرتےہیں، مثلا: ً ایک شخص فوت ہوتا ہے، اس کا ایک بیٹا زندہ ہے، دوسرا بیٹا فوت ہوچکا ہے لیکن اس فوت شدہ بیٹے کا ایک بیٹا جو اب فوت ہونے والے کا پوتا ہے، وہ موجود ہے۔ اصول میراث کے مطابق یہ پوتا محروم ہے کیونکہ قریبی عصبہ کی موجودگی میں دور کا عصبہ رشتے دار محروم ہوتا ہے۔ اس قسم کی انتہائی اور نادر صورتوں کےلیے اللہ تعالی کے نازل کردہ قانون میں تبدیلی کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ شرعی طور پراس کا حل موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ فوت ہونے والا اپنے غیروارث پوتے کے حق میں کچھ وصیت کرجائے۔ اگر وصیت نہ ہو تو وارثوں کے لےمستحب اور بعض علماء کے نزدیک واجب ہے کہ وارث محروم الارث پوتوں وغیرہ کو وراثت میں سے کچھ نہ کچھ حصہ دیں۔ قرآن کریم کی آیت: ﴿ وَإِذا حَضَرَ القِسمَةَ أُولُوا القُربى وَاليَتـمى وَالمَسـكينُ فَارزُقوهُم مِنهُ﴾(النساء: 4؍8) ” وراثت کی تقسیم کے وقت رشتے دار، یتیم اور مساکین آ حاضر ہوں تو تم مال وراثت میں سے انہیں کچھ دے دو۔“ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اس حکم قرآنی کو محض اخلاقی ہدایت سمجھ کر اپنے نہایت قریبی رشتے داروں (بھتیجوں وغیرہ) کو بالکل نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے اسلام کا قانون وراثت تنقید واعتراض کا نشانہ بنتا ہے، حالانکہ اس میں تو ایسی کوئی چیز نہیں جس پر انگشت نمائی کی جا سکے۔ اگر چچے، تائے اپنے بھتیجوں وغیرہ کے ساتھ سفقت، ہمدردی اور صلہ رحمی کا معاملہ کریں جیسا کر اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے ایک اسلامی معاشرے میں پوتوں وغیرہ کی وراثت یا عدم وراثت کا مسئلہ زیربحث ہی نہ آئے کیونکہ صلہ رحمی کے اعتبار سے ان کی محرومی وراثت کا ازالہ خوش اسلوبی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں تعجب کی بات ہے کہ اس قسم کے اعتراضات ان غیر مسلموں کی طرف سے بھی بیش کیے جاتے ہیں جن کے ہاں وراثت کا کوئی اصول و ضابطہ سرے سے موجود ہی نہیں، سوائے اس کے کہ مرنےوالے کا بڑا بیٹا یا بیٹی تمام تر کے کی مالک بن جاتی ہے، خواہ یہ کروڑوں کی جائیداد ہو۔ میت کی باقی اولاد بالکل محروم ہوتی ہے، حالانکہ اولاد ہونے کے لحاظ سے وہ اس کے برابر حق دار ہیں۔ انصاف سے اس قدر بعید رواج پر عمل کرنے والوں کی طرف سے اسلام کے انتہائی عادلانہ نظام وراثت کی ایک شق تلاش کرکے اس پر غلط سلط اعتراض کرنا اور اس طرح پوری شریعت کو ناقابل عمل قرار دینے کی کوشش کرنا معقول طرز عمل نہیں۔ افسوس ہے کہ بعض نام نہاد مسلمان بھی غیر مسلموں سے متاثر ہوکر انہی کی زبان بولنا شروع کردیتے ہیں اور اپنا ایمان خطرے میں ڈال لیتے ہیں۔
(4) وارث کے حق میں وصیت سے منع کرنے میں یہ حکمت ہے کہ اگر وہ وصیت قرآن وسنت کے مطابق ہو تو وصیت کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان وارثوں کو شرعاً وہی حصہ ملے گا، خواہ وصیت کی جائے یا نہ کی جائے، اور اگر اس کی وصیت قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اس طرح وہ کالعدم ہے۔
(5) بچہ بستر والے کا ہونے کی وضاحت حدیث: 2004 میں گزر چکی ہے۔
(6) نسبی تعلق ایک ناقابل تبدیل تعلق ہے، اسی وجہ سے اسلام کی نظر میں متنبیٰ (منہ بولے بیٹے) کو اصل باپ کی بجائے اپنی طرف منسوب کرنا اور ظہار (بیوی کو ماں بہن قرار دینا) غیر قانونی بلکہ گنا ہ ہے۔
(7) ولاء (آزادی) کا تعلق بھی ناقابل تبدیل ہے، جس نے کسی کو آزاد کیا ہے، اسی کا آزاد کردہ (مولیٰ) کہنا چاہیے۔ آزاد کرنے والے کے احسان کو فراموش کرکے کسی اور کو مولیٰ قرار دینا بہت بڑا گناہے ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2712