ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو وصیت کی (اس وقت آپ کی حالت اتنی خراب تھی کہ) آپ نے پیشاب کرنے کے لیے طشت منگوایا کہ اتنے میں آپ کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے (روح پرواز کر گئی) اور میں نہ جان سکی تو آپ نے کس کو وصیت کی؟ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الوصايا/حدیث: 3654]
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پرواز کر گئی، اس وقت تک میں وہاں موجود تھی پھر آخر کون ہے جسے وصی بنایا گیا؟ البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے کتاب و سنت سے متعلق وصیت انتقال سے کچھ روز پہلے کی ہو اور یہ وصیت کسی کے ساتھ خاص نہیں ہو سکتی بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے عام ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3654
اردو حاشہ: حضرت عائشہؓ کا مقصود یہ ہے کہ میں وفات سے قبل ہمہ وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مصروف رہی۔ وفات سے کئی دن پہلے آپ میرے گھر منتقل ہوچکے تھے۔ اگر آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرماتے تو مجھے لازماً علم ہوتا‘ اور پھر عین وفات کے وقت تو آپ میری گود میں تھے‘ نیز مالی وصیت تو آپ نے کرنی ہی نہیں تھی کیونکہ آپ نے مال چھوڑا ہی نہیں۔ باقی رہی کتاب وسنت کی وصیت تو وہ سب مسلمانوں کے لیے تھی نہ کہ صرف حضرت علی کے لیے۔ اور اگر خلافت مراد ہو تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی ایسی وصیت کا دعویٰ بھی نہیں فرمایا‘ لہٰذا یہ صرف پراپیگنڈہ تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3654
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 33
´طشت میں پیشاب کرنے کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مرض الموت میں) علی رضی اللہ عنہ کو وصی بنایا، حقیقت یہ ہے کہ آپ نے تھال منگوایا کہ اس میں پیشاب کریں، مگر (اس سے قبل ہی) آپ کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ (آپ فوت ہو گئے) مجھے پتہ بھی نہ چلا، تو آپ نے کس کو وصیت کی؟ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 33]
33۔ اردو حاشیہ: ➊ «طست» ایک تھال کی طرح کا برتن ہوتا تھا جس کا پیندہ قریب ہوتا تھا اور منہ کھلا۔ اس قسم کے برتن میں پیشاب کرنے سے چھینٹے پڑنے کا احتمال ہوتا ہے، اس لیے یہ باب قائم فرمایا کہ اگر احتیاط سے پیشاب کیا جائے، چھینٹے نہ پڑیں تو کوئی حرج نہیں۔ ➋ اس حدیث میں وصیت سے وصیت خلافت مراد ہے جیسا کہ روا فض کا عقیدہ ہے، اسی لیے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ”وصی“ کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد یہ ہے کہ وصیت تو وفات کے وقت ہوتی ہے اور اس وقت آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ وہیں آپ کی وفات ہوئی۔ [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1389] لہٰذا وصیت کب کی؟ اور کس کو کی؟ یعنی آپ نے کوئی وصیت نہیں کی، نہ آپ کو اس کا موقع ہی ملا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 33
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4459
4459. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، ان کے پاس ذکر ہوا کہ نبی ﷺ نے حضرت علی ؓ کو کوئی خاص وصیت کی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: یہ کون کہتا ہے؟ میں خود نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھی، آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ آپ نے طشت منگوایا، پھر ایک طرف جھک گئے اور آپ کی وفات ہو گئی۔ اس وقت مجھے بھی معلوم نہیں ہوا، پھر حضرت علی ؓ کو آپ نے کب وصی بنا دیا؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4459]
حدیث حاشیہ: 1۔ وصیت اگر ہو سکتی تھی تو زندگی کے آخری لمحات میں ہو سکتی تھی۔ آخری وقت کی وصیت کا حضرت عائشہ ؓ انکار کر رہی ہیں اس کے باوجود اگر رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے کوئی وصیت کی ہوتی تو صحابہ میں سے کسی نے تو اسے سنا ہوتا۔ کوئی اسے بیان کرتا، حالانکہ کتب حدیث میں وصیت مزعومہ کے متعلق کوئی بھی روایت وحکایت منقول نہیں ہے۔ ایسے حالات میں حضرت علی ؓ "وصي رسول اللہ" کیسے بن گئے؟ 2۔ خود حضرت علی ؓ کی تصریحات ہیں کہ وصیت کے متعلق ہماری کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ حضرت علی ؓ اپنا صحیفہ دکھایا کرتے تھے جس میں احکام صدقات ودیات وغیرہ تھے۔ اس میں بھی خلافت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4459
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 65
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کے ساتھ ٹیک لگوائی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا اور اس میں پیشاب کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک طرف) جُھک گئےاور فوت ہو گئے۔ [صحيح ابن خزيمه: 65]
فوائد:
امیمہ بنت رقیقہ بیان کرتی ہیں: «كَانَ لِلنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَدَحٌ مِنْ عِيْدَانِ تَحْتَ سَرِيرِهِ يَبُولُ فيه بالليل» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی کے نیچے کھجور کی لکڑی کا برتن تھا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت پیشاب کرتے تھے۔“ [ابوداؤد: 24، نسائي: 32، صحيح الجامع: 4832، صحيح]
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے کہ رات کے وقت پیشاب کے لیے برتن رکھنا جائز ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
[نيل الاوطار: 99/1]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 65