معتمر بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد حصین بن عبدالرحمٰن کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے اور وہ عمرو بن جاوان سے، جو ایک تمیمی شخص ہیں، روایت کرتے ہیں، اور یہ بات اس طرح ہوئی کہ میں (حصین بن عبدالرحمٰن) نے ان سے (یعنی عمرو بن جاوان سے) کہا: کیا تم نے احنف بن قیس کا اعتزال دیکھا ہے، کیسے ہوا؟ وہ کہتے ہیں: میں نے احنف کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں مدینہ آیا (اس وقت) میں حج پر نکلا ہوا تھا، اسی اثناء میں ہم اپنی قیام گاہوں میں اپنے کجاوے اتار اتار کر رکھ رہے تھے کہ اچانک ایک آنے والے شخص نے آ کر بتایا کہ لوگ مسجد میں اکٹھا ہو رہے ہیں۔ میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ اکٹھا ہیں اور انہیں کے درمیان کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ان میں علی بن ابی طالب، زبیر، طلحہ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم موجود ہیں۔ میں وہاں کھڑا ہو گیا، اسی دوران یہ آواز آئی: یہ لو عثمان بن عفان بھی آ گئے، وہ آئے ان کے جسم پر ایک زرد رنگ کی چادر تھی ۱؎، میں نے اپنے پاس والے سے کہا: جیسے تم ہو ویسے رہو مجھے دیکھ لینے دو وہ (عثمان) کیا کہتے ہیں، عثمان نے کہا: کیا یہاں علی ہیں، کیا یہاں زبیر ہیں، کیا یہاں طلحہ ہیں، کیا یہاں سعد ہیں؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں (موجود ہیں) انہوں نے کہا: میں آپ لوگوں سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جو شخص خرید لے گا فلاں کا «مربد»(کھلیان، کھجور سکھانے کی جگہ) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا“، تو میں نے اسے خرید لیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر آپ کو بتایا تھا کہ میں نے عقلان کا «مربد»(کھلیان) خرید لیا ہے تو آپ نے فرمایا تھا: ”اسے ہماری مسجد (مسجد نبوی) میں شامل کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا“، لوگوں نے کہا: ہاں، (ایسا ہی ہوا تھا)(پھر) کہا: میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کیا تم جانتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”جو شخص رومہ کا کنواں خرید لے گا (رومہ مدینہ کی ایک جگہ کا نام ہے) اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا“۔ میں (بئررومہ خرید کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور (آپ سے) کہا: میں نے بئررومہ خرید لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مسلمانوں کے پینے کے لیے وقف کر دو، اس کا تمہیں اجر ملے گا“، لوگوں نے کہا: ہاں (ایسا ہی ہوا تھا) انہوں نے (پھر) کہا: میں تم سے اس اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں! کیا تمہیں معلوم ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جنگ تبوک کے موقع پر) فرمایا تھا: ”جو شخص جیش عسرۃ (تہی دست لشکر) کو (سواریوں اور سامان حرب و ضرب سے) آراستہ کرے گا اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا“، تو میں نے ان لشکریوں کو ساز و سامان کے ساتھ تیار کر دیا یہاں تک کہ انہیں عقال (اونٹوں کے پاؤں باندھنے کی رسی) اور خطام (مہار بنانے کی رسی) کی بھی ضرورت باقی نہ رہ گئی۔ لوگوں نے کہا: ہاں (آپ درست فرماتے ہیں ایسا ہی ہوا تھا) یہ سن کر انہوں نے کہا: اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ، اے اللہ تو گواہ رہ۔ [سنن نسائي/كتاب الاحباس/حدیث: 3636]
وضاحت: ۱؎: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب خوارج نے عثمان رضی الله عنہ کے خلاف باغیانہ کارروائیاں شروع کر دی تھیں اور ان سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کر رہے تھے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3636
اردو حاشہ: (1)”تنگی والا لشکر“ مراد غزوۂ تبوک کا لشکر ہے کیونکہ یہ سخت گرمی اور فقر کے دور میں روانہ ہوا تھا۔ (یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزرچکی ہے۔ (دیکھیے‘ حدیث: 3184) البتہ اس میں ابتدائی الفاظ نہیں۔ حضرت عمر بن جاوان کا مقصد یہ ہے کہ حضرت احنف بن قیس کا حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنگوں سے ایسا الگ رہنا اس تأثر کی بنا پر ہے جو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعے سے اخذ کیا کہ ایسی جنگیں عظیم شخصیتوں کی شہادت کا باعث بن جاتی ہے‘ لہٰذا ان میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ کہیں ایمان ضائع نہ ہوجائے اور آدمی کسی مقدس شخصیت کے قتل مں ملوث نہ ہوجائے۔ (2) حدیث میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مسجد کے لیے زمین وقف کرنے کا ذکر ہے جس سے مسجد کے لیے وقف کرنا ثابت ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3636