محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں کوفہ میں انصار کی ایک بڑی مجلس میں لوگوں کے درمیان بیٹھا ہوا تھا، اس مجلس میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلی بھی موجود تھے، ان لوگوں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ چھیڑا تو میں نے عبداللہ بن عتبہ بن مسعود کی روایت کا ذکر کیا جو (روایت) ابن عون کے قول «حتیٰ تضع» کے معنی اور حق میں تھی (یعنی حمل والی عورت کی عدت وضع حمل ہے)، (اس بات پر) ابن ابی لیلیٰ نے کہا: لیکن ان کے (یعنی عبداللہ بن عتبہ کے) چچا (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) اس کے قائل نہ تھے (کہ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے بلکہ وہ زیادہ مدت والی عدت کے قائل تھے) تب میں نے اپنی آواز بلند کی اور (زور سے) کہا: کیا میں جرات کر سکتا ہوں کہ عبداللہ بن عتبہ پر جھوٹا الزام لگاؤں (یہ نہیں ہو سکتا) وہ (عبداللہ بن عتبہ) کوفہ کے علاقے میں موجود ہیں (جس کو ذرا بھی شک و شبہ ہو وہ ان سے پوچھ سکتا ہے) پھر میں مالک (بن عامر ابن عود) سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سبیعہ رضی اللہ عنہا کے معاملے میں کیا کہتے تھے؟ مالک نے کہا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم لوگ اس پر سختی اور تنگی ڈالتے ہو (اس سے زیادہ مدت والی عدت پر عمل کرانا چاہتے ہو) اور اسے رخصت سے فائدہ نہیں اٹھانے دینا چاہتے۔ جب کہ چھوٹی سورۃ النساء (یعنی سورۃ الطلاق، جس میں حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل بتائی گئی ہے) بڑی سورۃ (بقرہ) کے بعد اتری ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3551]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3551
اردو حاشہ: (1)”سختی کرتے ہو“ یعنی اگر عورت کو آخری عدت گزارنے کا پابند کیا جائے تو یہ اس پر بے جاسختی ہے کہ بچہ پہلے پیدا ہوتو چار ماہ دس دن پورے کرے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے پورے ہوجائیں تو بچہ پیدا ہونے کا انتظار کرے۔ گویا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس مسلک کو پسند نہیں فرمایا بلکہ وہ حاملہ عورت کے لیے وضـع حمل ہی کو عدت قراردیتے تھے۔ (2)”چھوٹی نساء“ یعنی وہ چھوٹی سورت جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے ہیں۔ اس سے مراد سورۂ طلاق ہے جس میں یہ آیت ہے: ﴿وَأُولاتُ الأحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ﴾(الطلاق: 65:4)”حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش) ہے۔“ (3) بڑی سورۂ نساء سے مراد وہ بڑی سورت ہے جس میں عورتوں کے مسائل بیان ہوئے‘ یعنی سورۂ بقرہ جس میں ذکر ہے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہوجائے‘ وہ چار مہینے دس دن انتظار کرے۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ حاملہ عورتو ں کا حکم بعد میں بیان کیا گیا‘ لہٰذا وہ چار ماہ دس دن کے حکم سے مستثنیٰ ہیں اور یہی مسلک ہے۔ (5) حق بات پہنچنے کے لیے اہل علم بیٹھ کر کسی مسئلے کے بارے میں بحث مباحثہ کرسکتے ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3551