الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب الطلاق
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
56. بَابُ : عِدَّةِ الْحَامِلِ الْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا
56. باب: حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3536
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لِمُحَمَّدٍ، قَالَا: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ," أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ نُفِسَتْ بَعْدَ وَفَاةِ زَوْجِهَا بِلَيَالٍ، فَجَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ أَنْ تَنْكِحَ، فَأَذِنَ لَهَا، فَنَكَحَتْ".
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمی رضی اللہ عنہا کو اپنے شوہر کے انتقال کے بعد بچہ جن کر حالت نفاس میں ہوئے کچھ ہی راتیں گزریں تھیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے دوسری شادی کرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے شادی کر لی۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3536]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/الطلاق 39 (5320)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 7 (2029)، (تحفة الأشراف: 11272)، موطا امام مالک/الطلاق 30 (85)، مسند احمد (4/327)، ویأتي فیما یلي (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

   صحيح البخاريأذن لها فنكحت
   سنن النسائى الصغرىأذن لها فنكحت
   سنن النسائى الصغرىتنكح إذا تعلت من نفاسها
   سنن ابن ماجهأمر سبيعة أن تنكح إذا تعلت من نفاسها
   بلوغ المرامفاستاذنته ان تنكح فاذن لها فنكحت

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3536 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3536  
اردو حاشہ:
عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو وہ حاملہ ہو تو جمہور اہل علم کے نزدیک اس کی عدت چار ماہ دس دن کے بجائے وضع حمل ہے۔ جب بچہ پیدا ہوجائے تو وہ آزاد ہے۔ چاہے تو آگے نکاح کرسکتی ہے۔ اب اس پر سوگ بھی نہیں رہا لیکن نفاس ختم ہونے تک خاوند اس کے قریب نہیں جا سکتا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ دونوں میں سے آخری عدت ہے‘ یعنی بچہ چار ماہ دس دن سے پہلے پیدا ہوجائے تو چار ماہ دس دن ہے اور اگر چار ماہ دس دن پہلے گزر جائیں تو وہ بچے کی پیدائش عدت ہے۔ گویا ان کا خیال تھا کہ سوگ اپنی جگہ ضروری ہے اور وضح حمل اپنی جگہ۔ وہ دونوں احادیث اور قرآنی آیت پر بیک وقت عمل کرتے ہیں۔ یہ بات اگرچہ معقول ہے مگر مذکورہ حدیث کے خلاف ہے‘ لہٰذا یہ غیر معتبر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3536   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 945  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی اجازت دے دی اور اس نے نکاح کر لیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی اصل بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس روز بعد بچے کو جنم دیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 945»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ ، حديث:5320، ومسلم، الطلاق، باب انقضاء عدة المتوفي عنها وغيرها بوضع الحمل، حديث:1485، وانظر، حديث:1484.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس عورت کا شوہر وفات پا جائے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے‘ یعنی اس کی عدت بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے‘ خواہ وہ مدت چار ماہ دس دن سے کم ہو یا زیادہ، جیسا کہ حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات سے تقریباً چالیس روز بعد جب بچہ جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نئے نکاح کی اجازت دے دی تھی۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
ان کی بنیادی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ﴾ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔
اس آیت میں جس طرح حاملہ مطلقہ کی عدت بیان ہوئی ہے اسی طرح بیوہ حاملہ عورت کی عدت بھی بیان ہوئی ہے جیسا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صراحت ملتی ہے جسے امام عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں اور ضیاء نے المختارہ میں بیان کیا ہے۔
وضاحت: «حضرت سُبَیْعَہ رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ (تصغیر کے ساتھ) بنت حارث اسلمیہ۔
بنو اسلم کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے اسلمیہ کہلاتی ہیں۔
مشہور و معروف صحابیہ ہیں۔
ابن سعد کے بقول یہ مہاجرات میں سے ہیں۔
یہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے عقد نکاح میں تھیں‘ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں وفات پا گئے تھے‘ پھر انھوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے نکاح کر لیا۔
اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے معروف صحابی ابوسنابل رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا۔
«امام زہری رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب قریشی زہری۔
بہت بڑے امام تھے۔
حجاز و شام کے عالم تھے۔
چوتھے طبقے کے سرکردہ علمائے کرام میں سے تھے۔
ان کی جلالت شان اور اتقان پر سب متفق ہیں۔
امام لیث کا قول ہے: میں نے ابن شہاب جیسا جامع الصفات عالم کبھی نہیں دیکھا۔
اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابن شہاب بہت سخی انسان تھے‘ انسانوں میں ان کی نظیر و مثال نہیں ملتی۔
۱۲۴ ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 945   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3537  
´حاملہ عورت (جس کا شوہر مر گیا ہو) کی عدت کا بیان۔`
مسور بن مخرمہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیعہ رضی اللہ عنہا کو اپنے نفاس سے فراغت کے بعد شادی کرنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3537]
اردو حاشہ:
چونکہ عموماً نکاح نفاس سے پاک ہونے کے بعد ہی کیا جاتا ہے‘ نیز نکاح کے مکمل فوائد اسی وقت حاصل ہوتے ہیں‘ اس لیے ایسے فرما د یا ورنہ یہ مطلب نہیں کہ نفاس میں نکاح ہی نہیں ہوسکتا۔ دوران نفاس میں نکاح سے کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ عدت وضع حمل تھی جو ختم ہوچکی۔ تفصیلی روایت سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ دیکھیے‘ حدیث: 3540‘ 3541۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3537   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5320  
5320. سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ن‬ے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنم دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اس نکاح کی اجازت دے دی پھر اس نے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5320]
حدیث حاشیہ:
قرء حیض اور طہر دونوں معنوں میں آتا ہے۔
اسی لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ''ثلاثة قروء'' سے تین حیض مراد رکھے ہیں اور شافعی نے تین طہر۔
مگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے اس لیے کہ طلاق طہر میں مشروع ہے حیض میں نہیں اب اگر کسی نے ایک طہر ميں طلاق دی تو یا تو یہ طہر عدت میں شمار ہوگا۔
شافعیہ کہتے ہیں تب تو عدت تین طہر سے کم ٹھہرے گی۔
اگر محسوب نہ ہوگا تو عدت تین طہر سے زائد ہو جائے گی۔
شافعیہ یہ جواب دیتے ہیں کہ دو طہر اور تیسرے طہر کے ایک حصے کو تین طہر کہہ سکتے ہیں جیسے فرمایا ﴿الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ﴾ (البقرة: 197)
حالانکہ حقیقت میں حج کے دو مہینے دس دن ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5320   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5320  
5320. سیدنا مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ‬ ؓ ن‬ے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنم دیا۔ پھر وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے اس نکاح کی اجازت دے دی پھر اس نے نکاح کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5320]
حدیث حاشیہ:
(1)
آیت کریمہ میں حاملہ کی عدت بیان ہوئی ہے کہ اگر اسے طلاق مل جائے تو وضع حمل کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
اگر اس خاوند فوت ہو گیا ہو اور وہ حمل سے ہو تو بھی اس کی عدت وضع ہی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ اگر کوئی عورت شوہر کی وفات کے وقت حمل سے ہو تو وہ لمبی مدت بطور عدت گزارے گی، لیکن باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۂ طلاق جس میں حاملہ عورت کی عدت بیان ہوئی ہے، وہ سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی تھی جس میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو۔
(2)
واضح رہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۂ بقرہ کی آیت: 234 کو بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اسے آخری مدت پوری کرنی چاہیے۔
حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا:
کیا اللہ تعالیٰ نے"آخر أجلين'' کہا ہے۔
اگر خاوند کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن گزر جائیں اور اس نے بچہ جنم نہ دیا ہو تو کیا نکاح کر سکتی ہے؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام سے کہا:
جاؤ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ کو آؤ۔
بہرحال حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، خواہ اس کا خاوند فوت ہوا ہو یا اسے طلاق ملی ہو۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 573/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5320