´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا مسور بن مخرمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات کے چند روز بعد بچہ جنا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور نکاح کی اجازت طلب کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نکاح کی اجازت دے دی اور اس نے نکاح کر لیا۔ اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور اس حدیث کی اصل بخاری و مسلم دونوں میں موجود ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اس نے اپنے شوہر کی وفات کے چالیس روز بعد بچے کو جنم دیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 945»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطلاق، باب: ﴿وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن﴾ ، حديث:5320، ومسلم، الطلاق، باب انقضاء عدة المتوفي عنها وغيرها بوضع الحمل، حديث:1485، وانظر، حديث:1484.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس عورت کا شوہر وفات پا جائے اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے‘ یعنی اس کی عدت بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے‘ خواہ وہ مدت چار ماہ دس دن سے کم ہو یا زیادہ، جیسا کہ حضرت سبیعہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کی وفات سے تقریباً چالیس روز بعد جب بچہ جنم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں نئے نکاح کی اجازت دے دی تھی۔
جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔
ان کی بنیادی دلیل یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ ﴾ ”حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔
“اس آیت میں جس طرح حاملہ مطلقہ کی عدت بیان ہوئی ہے اسی طرح بیوہ حاملہ عورت کی عدت بھی بیان ہوئی ہے جیسا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صراحت ملتی ہے جسے امام عبداللہ بن احمد نے زوائد مسند میں اور ضیاء نے المختارہ میں بیان کیا ہے۔
وضاحت:
«حضرت سُبَیْعَہ رضی اللہ عنہا»
(تصغیر کے ساتھ) بنت حارث اسلمیہ۔
بنو اسلم کی جانب منسوب ہونے کی وجہ سے اسلمیہ کہلاتی ہیں۔
مشہور و معروف صحابیہ ہیں۔
ابن سعد کے بقول یہ مہاجرات میں سے ہیں۔
یہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے عقد نکاح میں تھیں‘ وہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں وفات پا گئے تھے‘ پھر انھوں نے اپنی قوم کے ایک نوجوان سے نکاح کر لیا۔
اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ انھوں نے معروف صحابی ابوسنابل رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا۔
«امام زہری رحمہ اللہ» محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب قریشی زہری۔
بہت بڑے امام تھے۔
حجاز و شام کے عالم تھے۔
چوتھے طبقے کے سرکردہ علمائے کرام میں سے تھے۔
ان کی جلالت شان اور اتقان پر سب متفق ہیں۔
امام لیث کا قول ہے: میں نے ابن شہاب جیسا جامع الصفات عالم کبھی نہیں دیکھا۔
اور امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابن شہاب بہت سخی انسان تھے‘ انسانوں میں ان کی نظیر و مثال نہیں ملتی۔
۱۲۴ ہجری میں وفات پائی۔