عبادہ بن ولید ربیع بنت معوذ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھ سے اپنا واقعہ (حدیث) بیان کیجئے انہوں نے کہا: میں نے اپنے شوہر سے خلع کیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر پوچھا کہ مجھے کتنی عدت گزارنی ہو گی؟ انہوں نے کہا: تمہارے لیے عدت تو کوئی نہیں لیکن اگر انہیں دنوں (یعنی طہر سے فراغت کے بعد) اپنے شوہر کے پاس رہی ہو تو ایک حیض آنے تک رکی رہو۔ انہوں نے کہا: میں اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے کی پیروی کر رہا ہوں جو آپ نے ثابت بن قیس کی بیوی مریم غالیہ کے خلع کرنے کے موقع پر صادر فرمایا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3528]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3528
اردو حاشہ: (1) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حیض عدت بھی استبرائے رحم‘ یعنی رحم کی صفائی معلوم کرنے کے لیے ہے۔ اگر تازہ طہر میں جماع نہ ہوا ہو تو ایک حیض عدت بھی ضروری نہیں لیکن یہ تفصیل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اپنی ہے‘ نبیﷺ سے جو صحیح ثابت ہے کہ وہ یہی ہے کہ آپ نے ہر خلع والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ہے (ماسواحاملہ کے) خواہ اس سے حالیہ طہر میں جماع ہوا ہو یا نہ۔ آپ نے اس کی تفصیل طلب نہیں کی‘ نیز چونکہ جماع مخفی چیز ہے‘ لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ ہر خلع والی عورت ایک حیض عدت گزارے تاکہ شک وشبہ نہ رہے۔ (2) یہ بات یاد رہے کہ خلع میں رجوع تو نہیں ہوسکتا مگر بعد میں دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تین طلاق کے حکم میں ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3528