انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی تھا جو اچھا شوربہ بناتا تھا۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں، اس نے آپ کو اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بلایا، آپ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کر کے پوچھا: ”کیا انہیں بھی لے کر آؤں“، اس نے ہاتھ سے اشارہ سے منع کیا دو یا تین بار کہ نہیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3466]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3466
اردو حاشہ: (1) گونگے بھی دنیا میں بستے ہیں۔ ان کی بھی شادیاں ہوتی ہیں۔ انہیں بھی طلاق کی ضرورت پڑسکتی ہے اور وہ عموماً اشارے ہی سے بات کرتے ہیں‘ لہٰذا لازمی بات ہے کہ اشارہ معتبر ہو۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اشارہ واضح ہونا چاہیے جس سے مقصود صاف سمجھ میں آئے۔ عام آدمی بھی اشاروں سے باتیں کرلیتے ہیں‘ لہٰذا اشارہ معتبر ہوگا‘ خواہ گونگا کرے یا کوئی دوسرا فرد بشرطیکہ اشارہ واضح ہو۔ (2) رسول اللہﷺ کا حضرت عائشہؓ کو ساتھ لے جانے پر اصرار شاید اس وجہ سے تھا کہ حضرت عائشہؓ کو بھی بھوک لگی تھی۔ آپ نے مناسب نہ سمجھا کہ کھانے میں اپنے آپ کو ان پر ترجیح دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی علامت ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: ”ساتھی [وَشِبْعُ الْفَتٰی لُؤْمٌ اِذا جَاعَ صَاحِبُهُ]”ساتھی بھوکا ہو تو اپنا پیٹ بھرا ہونا قابل ملامت ہے۔“ اور فارسی کا انکار شاید اس وجہ سے تھا کہ شوربہ صرف آپ کی کفایت کرسکتاتھا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3466