انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی کے پاس گئے اور میری ماں ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حیس بنایا، میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور آپ سے عرض کیا: میری والدہ ماجدہ آپ کو سلام پیش کرتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ ہماری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا تحفہ ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے رکھ دو اور جاؤ فلاں فلاں کو بلا لاؤ، آپ نے ان کے نام لیے اور (راستے میں) جو بھی ملے اسے بھی بلا لو“۔ راوی جعد کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: وہ لوگ کتنے رہے ہوں گے؟ کہا: تقریباً تین سو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس آدمیوں کا حلقہ (دائرہ) بنا کر کھاؤ، اور ہر شخص اپنے قریب (یعنی سامنے) سے کھائے“، تو ان لوگوں نے (ایسے ہی کر کے) کھایا اور سب آسودہ ہو گئے، (دس آدمیوں کی) ایک جماعت کھا کر نکلی تو (دس آدمیوں کی) دوسری جماعت آئی (اور اس نے کھایا اور وہ آسودہ ہوئی، اس طرح لوگ آتے گئے اور پیٹ بھر کر کھاتے اور نکلتے گئے، جب سب کھا چکے تو) مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس! اٹھا لو (وہ کھانا جو لائے تھے) تو میں نے اٹھا لیا۔ مگر میں کہہ نہیں سکتا کہ جب میں نے لا کر رکھا تھا تب زیادہ تھا یا جب اٹھایا تب (زیادہ تھا)۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3389]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3389
اردو حاشہ: شادی بیاہ کے موقع پر دلھن دلھن کو تحفئہ ہدیہ دینا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے‘ جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ اس حدیث میں جس زوجہ محترمہ کا ذکر ہے وہ حضرت زینبؓ ہیں۔ حضرت ام سلیمؓ نے ملیدہ کا ہدیہ رسول اللہﷺ کو بھیجا تھا۔ رسول اللہﷺ نے وہ ہدیہ قبول فرمایا اور کم وبیش تین سو کے قریب صحابہ کرام کو بھی اس ہدیے میں شریک فرمایا۔ حدیث شریف سے مطلقاً ہدیہ دینے کا بھی استحباب ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ایک دوسرے سے محبت والفت پیدا ہوتی ہے‘ دوریاں کم ہوتی اور قربتیں بڑھتی ہیں۔ اس ذریعے سے اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے جو کہ مطلوب اور محبوب عمل ہے۔ ارشاد گرامی ہے: [تَهادُوا تَحابُّوا](صحیح الجامع الصغیر‘ حدیث: 3004) یعنی ایک دوسرے کو تحفے ہدیے دیا کرو‘ اس سے آپس کی محبتیں پروان چڑھتیں ہیں۔ چنانچہ بالخصوص اہل علم اور بالعموم عوام الناس کو اس سنت پر اہتمام سے عمل کرنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3389