علقمہ اور اسود کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا گیا جس نے ایک عورت سے شادی تو کی لیکن اس کا مہر متعین نہ کیا اور اس سے خلوت سے پہلے مر گیا؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگوں سے پوچھو کہ کیا تم لوگوں کے سامنے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں) ایسا کوئی معاملہ پیش آیا ہے؟ لوگوں نے کہا: عبداللہ! ہم کوئی ایسی نظیر نہیں پاتے۔ تو انہوں نے کہا: میں اپنی عقل و رائے سے کہتا ہوں اگر درست ہو تو سمجھو کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔ اسے مہر مثل دیا جائے گا ۱؎، نہ کم اور نہ زیادہ، اسے میراث میں اس کا حق و حصہ دیا جائے گا اور اسے عدت بھی گزارنی ہو گی۔ (یہ سن کر) اشجع (قبیلے کا) ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہمارے یہاں کی ایک عورت بروع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فیصلہ دیا تھا، اس عورت نے ایک شخص سے نکاح کیا، وہ شخص اس کے پاس (خلوت میں) جانے سے پہلے مر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خاندان کی عورتوں کی مہر کے مطابق اس کی مہر کا فیصلہ کیا اور (بتایا کہ) اسے میراث بھی ملے گی اور عدت بھی گزارے گی۔ (یہ سن کر) عبداللہ بن مسعود نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھا دیئے (اور خوش ہو کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ان کا فیصلہ صحیح ہوا) اور اللہ اکبر کہا (یعنی اللہ کی بڑائی بیان کی)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اسود کا ذکر زائدہ کے سوا کسی نے نہیں کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3356]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3356
اردو حاشہ: آئندہ روایات کا اسانید کو دیکھنے سے خود بخود وضاحت ہوجاتی ہے کہ زائدہ کے علاوہ باقی راوۃ صرف علقمہ کا ذکر کرتے ہیں۔ فوائدومسائل: (1) مہر مقرر کرنے کے بغیر نکاح ہوسکتا ہے مگر مہر کی نفی نہ کی جائے۔ اگر مہر کی نفی کی جائے گی تو نکاح باطل ہوگا۔ مہر کی نفی نہ ہو مگر مقرر نہ کیا گیا ہو تو بعد میں جس پر بھی اتفاق ہوجائے‘ وہی مہر ہوگا اور اگر اتفاق نہ ہو تو اس عورت کی ذات اور خاندانی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مہر مقرر کیا جائے گا‘ مثلاً: اس کی بہنوں یا پھوپھیوں یا اس جیسی دوسری عورتوں کا عمومی مہر۔ اسے مہر مثل کہا جاتا ہے۔ (2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے فتویٰ کی بنیاد ی یہ ہے کہ نکاح صحیح ہے اگرچہ مہر مقرر نہیں ہوا‘ اور وہ اس کی قانونی بیوی ہے اگرچہ جماع وغیرہ نہیں ہوا‘ لہٰذا اس پر تمام حقوق وفرائض لاگو ہوں گے۔ رسول اللہﷺ کا فیصلہ معلوم ہوجانے کے بعد تو اس فتویٰ کی صحت یقینی ہوگئی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔ (3) اگر ایک مسئلے میں شرعی نص وارد ہو تو پھر قیاس واجتہاد کی گنجائش نہیں بلکہ اسی پر عمل کیا جائے گا۔ (4) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ورع تقویٰ دیکھیے کہ ایک ماہ تک غوروخوض کیا‘ پھر فتویٰ دیا جیسا کہ آئندہ روایت میں آرہا ہے۔ ایک عالم کے یہی لائق ہے کہ وہ فتویٰ دینے میں جلدی نہ کرے۔ نصوص میں غوروفکر کرے اور پھر کوئی رائے قائم کرے۔ (5) عالم دین کو اگر کوئی مسئلے کے بارے میں علم نہیں تو فوراً فتویٰ دینے کی بجائے دیگر جید علماء سے اس کی بابت پوری تفصیل معلوم کرے‘ پھر کوئی رائے قائم کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3356