ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی ان کے پاس آئی، اور اس نے کہا: میرے باپ نے میری شادی اپنے بھتیجے سے اس کی خست اور کمینگی پر پردہ ڈالنے کے لیے کر دی ہے، حالانکہ میں اس شادی سے خوش نہیں ہوں، انہوں نے اس سے کہا: بیٹھ جاؤ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ لینے دو (پھر اپنا قضیہ آپ کے سامنے پیش کرو)، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے آئے تو اس نے آپ کو اپنے معاملے سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کو بلا بھیجا (اور جب وہ آ گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ اس (لڑکی) کے اختیار میں دے دیا اس (لڑکی) نے کہا: اللہ کے رسول! میرے والد نے جو کچھ کر دیا ہے، میں نے اسے قبول کر لیا (ان کے کئے ہوئے نکاح کو رد نہیں کرتی) لیکن میں نے (اس معاملہ کو آپ کے سامنے پیش کر کے) یہ جاننا چاہا ہے کہ کیا عورتوں کو بھی کچھ حق و اختیار حاصل ہے (سو میں نے جان لیا)۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3271]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ السنائي (تحفة الأشراف: 16186)، وأخرجہ سنن ابن ماجہ/النکاح 12 (1874) من حدیث عائشة (ضعیف شاذ)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، عبد الله بن بريدة لم يسمع من عائشة رضي الله عنها (انظر سنن الترمذي: 3513 بتحقيقي) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 345
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3271
اردو حاشہ: (1) اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی کا نکاح بھی اس کا باپ اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا اور لڑکی راضی نہ ہو تو اسے نکاح کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔ اگر خاوند رضا مند نہیں تو پھر فسخ نکاح کے لیے عدالت یا پنچایت کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ (2)”اس کا مرتبہ اونچاکرے“ وہ معاشرے میں کم حیثیت ہوگا یا اچھے کردار کا مالک نہ ہوگا۔ یا مالی مرتبہ بھی مراد ہوسکتا ہے۔ وہ فقیر ہوگا جبکہ یہ لڑکی اور اس کا والد امیر ہوں گے۔ (3)”برقرار رکھتی ہوں“ معلوم ہوتا ہے لڑکی واقعتا عقل وفضل والی تھی۔ اپنا مقصد بھی ثابت کردیا اور با پ کی لاج بھی لی۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3271