الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
34. بَابُ : إِذْنِ الْبِكْرِ
34. باب: کنواری لڑکی سے اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3268
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ ذَكْوَانَ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اسْتَأْمِرُوا النِّسَاءَ فِي أَبْضَاعِهِنَّ، قِيلَ: فَإِنَّ الْبِكْرَ تَسْتَحِي وَتَسْكُتُ، قَالَ:" هُوَ إِذْنُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتوں سے ان کی شادی کے بارے میں مشورہ کیا کرو، کہا گیا: کنواری لڑکی تو شرم کرتی ہے، اور چپ رہتی ہے (بول نہیں پاتی)؟ آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3268]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح البخاری/النکاح 41 (5137)، والإکراہ 3 (6946)، والحیل 11 (6971)، صحیح مسلم/النکاح 9 (1420)، مسند احمد (6/45، 165، 203) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخارييستأمر النساء في أبضاعهن قال نعم قلت فإن البكر
   صحيح البخاريرضاها صمتها
   صحيح البخاريالبكر تستأذن البكر تستحيي قال إذنها صماتها
   سنن النسائى الصغرىاستأمروا النساء في أبضاعهن قيل فإن البكر تستحي وتسكت قال هو إذنها

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3268 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3268  
اردو حاشہ:
اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے اس میں عورت کے حقوق کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کرنے سے روکا گیا ہے۔ اسلام نے یہ حقوق عورت کو اس وقت دے جب عورتوں کو جانوروں کی طرح سمجھا جاتا تھا بلکہ جانوروں کی طرح اسے باندھا کھولا، اور بیچا جاتا تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3268   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6971  
6971. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جائے گی۔ میں نے کہا: کنواری لڑکی تو شرمائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کوئی یتیم بچی یا کنواری لڑکی سے نکاح کرنا چاہیے لیکن لڑکی نکاح پر رضا مند نہ ہوتو یہ حیلہ کرے كہ دو جھوٹے گواہ لائے جو گواہی دیں کہ اس مرد نے اس عورت سے نکاح کیا ہے جب لڑکی کو خبر پہنچی تو وہ بھی راضی ہوگئی، قاضی نے بھی جھوٹی گواہی قبول کر لی، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ اس نے نکاح نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6971]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث بالا سے حضرت امام بخاری نے بعض الناس کے ایک نہایت ہی کھلے ہوئے غلط فیصلے کی تردید فرمائی ہے۔
جیسا کہ روایات کے ذیل میں تشریح ہے۔
فقہاء کی ایسی ہی حیلہ بازیوں کی قلعی کھولنا یہاں کتاب الحیل کا مقصد ہے جیسا کہ بنظر انصاف مطالعہ کرنے والوں پر ظاہر ہوگا۔
شیخ سعدی نے ایسے ہی فقہائے کرام کے بارے میں کہا ہے:
فقیہان طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند کتنے ہی علمائے احناف حق پسند ایسے بھی ہیں جو ان حیلہ سازیوں کو تسلیم نہیں کرتے وہ یقینا ان سے مستثنیٰ ہیں۔
جزاهم اﷲ أحسن الجزاء۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6971   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6946  
6946. سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلے میں اجازت لی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں (سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں:) میں نے کہا: اگر کنواری لڑکی سے پوچھا جائے تو وہ شرم کرے گی اور خاموش رہے گی۔ آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6946]
حدیث حاشیہ:
کنواری لڑکی سے بھی اجازت کی ضرورت ہے پھر زبردستی نکاح کیسے ہو سکتا ہے یہی ثابت کرنا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6946   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5137  
5137. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کنواری لڑکی تو شرماتی ہے (اس لیے بول نہیں سکتی) تو آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی رضا مندی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5137]
حدیث حاشیہ:
(1)
شوہر دیدہ بالغہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا، نکاح کرنے والا باپ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسرا۔
اس میں تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح اس امر میں بھی اتفاق ہے کہ کنواری نابالغہ کا نکاح اس کا باپ ہی کر سکتا ہے۔
شوہر دیدہ نابالغ اور کنواری بالغہ کے متعلق اختلاف ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کنواری ہو یا بیوہ، چھوٹی ہو یا بڑی، نکاح کے وقت اس کی رضامندی بنیادی شرط ہے، حدیث کے ظاہری الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے، نیز بیوہ سے مشورہ اور کنواری سے اجازت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ منہ سے بول کر اپنی رضامندی کا اظہار کرے کیونکہ اپنے سابقہ تجربے کی وجہ سے اس کے بول کر کہنے میں کسی قسم کی حیا مانع نہیں ہوتی لیکن کنواری حیا کے مارے اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتی، اس لیے اس کی خاموشی ہی اجازت سمجھی جائے گی۔
(2)
فقہاء نے اس کے متعلق مزید وضاحت کی ہے کہ اجازت لیتے وقت اس کا ہنس دینا بھی اجازت کی علامت ہے لیکن اگر مذاق کے طور پر ہنسے تو یہ رضامندی نہیں ہوگی۔
اس کا مذاق یا خوشی سے ہنسنا حالات و قرائن سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
اگر اجازت کے وقت وہ روپڑے تو یہ اجازت کی علامت نہیں۔
لیکن بعض اوقات خوشی کے موقع پر بھی آنسو آ جاتے ہیں، پھر آنسوؤں کے متعلق بھی تفصیل ہے:
اگر آنسو گرم ہیں تو اجازت نہیں اور اگر آنسو ٹھنڈے ہیں تو یہ اجازت کی علامت ہیں کیونکہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں جبکہ غم اور پریشانی میں آنسو گرم آتے ہیں۔
والله اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5137   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6946  
6946. سیدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا عورتوں سے ان کے نکاح کے سلسلے میں اجازت لی جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں (سیدہ عائشہ‬ ؓ ک‬ہتی ہیں:) میں نے کہا: اگر کنواری لڑکی سے پوچھا جائے تو وہ شرم کرے گی اور خاموش رہے گی۔ آپ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6946]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے:
کنواری کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی اجازت کیسے ہوگی؟ آپ نے فرمایا:
وہ خاموش رہے۔
(صحیح البخاري، النکاح حدیث 5135)
اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان ان الفاظ کے ساتھ قائم کیا ہے:
(باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب إلاّ برضاهما)
باپ یا کوئی دوسرا کنواری یا شوہر دیدہ کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر نہ کرے۔
(صحیح البخاري، النکاح، باب 42)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کنواری لڑکی کے نکاح کے لیے بھی اجازت ضروری ہے تو پھر زبردستی نکاح کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر دیا گیا تو وہ اکراہ کے حکم میں ہوگی۔
بہرحال حالت اکراہ میں نکاح قطعاً جائز نہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6946   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6971  
6971. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے،انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کنواری لڑکی سے نکاح کی اجازت لی جائے گی۔ میں نے کہا: کنواری لڑکی تو شرمائے گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔ اس کے باوجود بعض لوگوں نے کہا ہے: اگر کوئی یتیم بچی یا کنواری لڑکی سے نکاح کرنا چاہیے لیکن لڑکی نکاح پر رضا مند نہ ہوتو یہ حیلہ کرے كہ دو جھوٹے گواہ لائے جو گواہی دیں کہ اس مرد نے اس عورت سے نکاح کیا ہے جب لڑکی کو خبر پہنچی تو وہ بھی راضی ہوگئی، قاضی نے بھی جھوٹی گواہی قبول کر لی، حالانکہ شوہر جانتا ہے کہ اس نے نکاح نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس عورت سے جماع کرنا جائز ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6971]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حیلہ سازوں کی قباحت اورخرابی بیان کرنے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے ہیں:
پہلی صورت کنواری لڑکی کے متعلق تھی، دوسری شوہردیدہ کے بارے میں اور تیسری صورت میں گواہی کے بعد اعتراف ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سب صورتوں میں ایک ہی موقف کو بار بار بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری طور پر نافذ ہو سکتا ہے لیکن باطنی اعتبار سے اس کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ ایسا شخص قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل مواخذہ ہوگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
بعض اوقات تم میں سے کوئی اپنے فریق مخالف کے مقابلے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہوتا ہے، اس طرح میں اس کی باتیں سن کر اس کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں، حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسے غیر کا حق مل رہا ہے تو وہ اسے نہ لے کیونکہ اس طرح میں نے اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیا ہے۔
(صحیح البخاري، الحیل، حدیث: 6967)

اس واضح اور دو ٹوک حدیث کے باوجود بعض لوگوں کواس بات پر اصرار ہے کہ عدالت کا فیصلہ ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے نافذ ہو جاتا ہے اور یہ حضرات اس حدیث کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کا محل نزاع کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں کیونکہ یہ حدیث اموال کے بارے میں ہے، عقود ومعاملات کے بارے میں نہیں ہے، حالانکہ یہ حدیث عام ہے خواہ حکم حاکم مال سے متعلق ہو یا کسی دوسرے حق کے بارے میں ہو، وہ حق خواہ مالِ عقود سے متعلق ہویا عقد نکاح سے تعلق رکھتا ہو۔
اموال وعقود کی تفریق دست ہنرشناس کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن حدیث کے الفاظ اس تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔
ان حضرات کا یہ کہنا کہ یہ حدیث جھوٹی گواہی کے متعلق نہیں بلکہ چرب لسانی اور زبان درازی کے بارے میں ہے۔

ہمارے رحجان کے مطابق اس طرح کی موشگافی حدیث سے ثابت نہیں ہوتی اور نہ شرعاً اس طرح کی سخن بازی کی اجازت ہی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6971