الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن نسائي
كتاب النكاح
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
28. بَابُ : إِنْكَاحِ الاِبْنِ أُمَّهُ
28. باب: بیٹے کا اپنی ماں کی شادی کرانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3256
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا بَعَثَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ، فَلَمْ تَزَوَّجْهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَخْطُبُهَا عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: أَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، وَأَنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" ارْجِعْ إِلَيْهَا، فَقُلْ لَهَا أَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ غَيْرَى، فَسَأَدْعُو اللَّهَ لَكِ فَيُذْهِبُ غَيْرَتَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ إِنِّي امْرَأَةٌ مُصْبِيَةٌ، فَسَتُكْفَيْنَ صِبْيَانَكِ، وَأَمَّا قَوْلُكِ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِي شَاهِدٌ، فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِيَائِكِ شَاهِدٌ وَلَا غَائِبٌ يَكْرَهُ ذَلِكَ"، فَقَالَتْ لِابْنِهَا: يَا عُمَرُ , قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَوَّجَهُ" , مُخْتَصَرٌ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ جب ان کی عدت پوری ہو گئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنی شادی کا پیغام بھیجا۔ جسے انہوں نے قبول نہ کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اپنی شادی کا پیغام دے کر ان کے پاس بھیجا، انہوں نے (عمر رضی اللہ عنہ سے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچا دو کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (دوسری بیویوں کے ساتھ رہ نہ پاؤں گی) بچوں والی ہوں (ان کا کیا بنے گا) اور میرا کوئی ولی اور سر پرست بھی موجود نہیں ہے۔ (جب کہ نکاح کرنے کے لیے ولی بھی ہونا چاہیئے) عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ کو یہ سب باتیں بتائیں، آپ نے ان سے کہا: (دوبارہ) ان کے پاس (لوٹ) جاؤ اور ان سے کہو: تمہاری یہ بات کہ میں ایک غیرت مند عورت ہوں (اس کا جواب یہ ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ سے تمہارے لیے دعا کروں گا، اللہ تمہاری غیرت (اور سوکنوں کی جلن) دور کر دے گا، اور اب رہی تمہاری (دوسری) بات کہ میں بچوں والی عورت ہوں تو تم (شادی کے بعد) اپنے بچوں کی کفایت (و کفالت) کرتی رہو گی اور اب رہی تمہاری (تیسری) بات کہ میرا کوئی ولی موجود نہیں ہے (تو میری شادی کون کرائے گا) تو ایسا ہے کہ تمہارا کوئی ولی موجود ہو یا غیر موجود میرے ساتھ تمہارے رشتہ نکاح کو ناپسند نہ کرے گا (جب عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب ان کے سامنے رکھا) تو انہوں نے اپنے بیٹے عمر بن ابی سلمہ سے کہا: اٹھو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (میرا) نکاح کر دو، تو انہوں نے (اپنی ماں کا) نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کر دیا، یہ حدیث مختصر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3256]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 18204)، مسند احمد (6/295، 313، 317، 320، 321) (ضعیف) یعنی بہذا السند والمتن وقد ورد بعضہ عندم فی الجنائز2 (918)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 3256 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3256  
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً حسن قراردیا ہے کہ صحیح مسلم میں اس کا شاہد موجود ہے۔ حالانکہ صحیح مسلم میں اس پوری حدیث کا شاہد موجود نہیں بلکہ بعض کا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ فاضل محقق کو یہاں سہو ہوگیا ہے، لہٰذا راجح اور درست بات یہ ہے کہ اس روایت کا، شاہد والے حصے کے علاوہ، باقی حصہ ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ابن عمر بن ابی سلمہ مجہول العین ہے۔ شیخ البانی‘ موسوعہ حدیثیہ کے محققین اور علامہ اتیوبی رحمہ اللہ نے اسی علت کی بنا پر ا س روایت کو ضعیف کہا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 67/ 186‘ والموسوعة الحدثیة، مسند الإمام أحمد: 44/ 151،295) البتہ یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ بیٹا ولی بن سکتا ہے۔ اور دیگر اولیاء موجود نہ ہوں تو نابالغ بیٹا جو سن تمیز کو پہنچ چکا ہو ولی بن سکتا ہے۔
(2) عدت ختم ہوگئی یہ عالی مرتبت خاتون حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی جو بدری صحابی تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو یہ بیوہ ہوگئیں۔
(3) بہت غیرت والی عورت میں اپنے خاوند کے بارے میں غیرت ہونی چاہیے مگر اس قدر نہیں کہ شریعت کی خلاف ورزی ہو، مثلاً: سوکن برداشت نہ کرے۔ حضرت ام سلمہؓ کا مقصود یہی غیرت تھی کہ جو کہ بے جا ہے۔
(4) ناپسند کرے گا گویا نکاح کے لیے ولی کی دلی رضا مندی ضروری ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ خود نکاح کروائے یا موقع پر موجود ہویا زبانی اجازت دے، یعنی کم از کم اسے اطلاع اور اس کی رضا مندی شامل ہو۔
(5) بیٹا ولی ہے مگر اس بات میں اختلاف ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں موجود ہونے کی صورت میں باپ مقدم ہوگا یا بیٹا؟ وراثت پر قیاس کریں تو بیٹا مقدم ہوگا۔ اگر مرتبے کا لحاظ رکھیں تو باپ مقدم ہوگا۔ واللہ أعلم۔ گویا دونوں میں سے کوئی بھی نکاح کروا دے تو نکاح درست ہوگا، تاہم باپ کی موجودگی میں باپ کی رضا مندی ہی سے بیٹا ولایت کا فریضہ انجام دے سکتا ہے، محض اپنی مرضی سے نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3256