طارق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی جنبی ہو گیا، اس نے نماز نہیں پڑھی، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے ٹھیک کیا، پھر ایک دوسرا آدمی بھی جنبی ہو گیا، تو اس نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی، اور آپ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی ایسا ہی فرمایا جیسا کہ دوسرے سے فرمایا تھا، یعنی تم نے بھی ٹھیک کیا“۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 325]
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 325
325۔ اردو حاشیہ: ➊ ”نماز نہ پڑھی“ اسے تیمم کا حکم معلوم نہ ہو گا، یا اس کا یہ عمل تیمم کی مشروعیت سے پہلے کا ہے کیونکہ حدیث: 321 میں گزرا ہے کہ ایک آدمی جنابت کی حالت میں تھا اور لوگوں سے الگ ہو کر بیٹھا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی نہ ہونے کی وجہ سے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صحیح شرعی مسئلہ یہی ہے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کر لیا جائے جیسا کہ دوسرے آدمی نے تیمم کر کے نماز پڑھ لی تھی اور آپ نے اسے درست قرار دیا ہے۔ رہا پہلا آدمی تو اسے بھی یہی چاہیے تھا لیکن چونکہ اسے علم نہ تھا یا ابھی تک تیمم کی مشروعیت نازل نہیں ہوئی تھی تو اسے چاہیے تھا کہ ایسی حالت میں نماز پڑھ لیتا جیسا کہ گزشتہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوضو اور بلاتیمم نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں برقرار بھی رکھا، لہٰذا ایسی حالت میں نماز نہ پڑھنا اس کا ذاتی اجتہاد تھا جس کی وجہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے أصبت کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی فرما دی، مراد یہ ہے کہ تجھے اس اجتہاد کا ایک اجر ملے گا۔ یہ قطعاً مراد نہیں کہ تم دونوں ہی حق پر ہو کیونکہ حقیقت میں حق پر وہی ہو گا جو اصل شرعی رخصت یا حکم کے مطابق عمل کرے گا اور یہ حقیقت اس وقت بالکل واضح ہو گی جب صحیح دلیل موجود ہو، لہٰذا دو اختلاف کرنے والے مجتہدوں کو بیک وقت حق پر نہیں کہا: جا سکتا، یقیناًً ایک خطاکار ہو گا۔ ➋ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے بعد ذکر کرنے کا مقصد یہ لگتا ہے کہ یہ مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، لہٰذا حدیث عائشہ اور اس حدیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں بنتا۔ واللہ أعلم۔ یعنی آدمی کو اسی حالت میں نماز پڑھ لینی چاہیے اگرچہ پانی اور تیمم کے لیے مٹی نہ بھی ملے، لیکن دلائل کی رو سے یہ حدیث صحیح ہے جیسا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔ ➌ اس حدیث سے پتا چلا کہ عہد نبوی میں بھی اجتہاد ہوتا رہا ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے بعد نصوص کی تلاش بھی جاری رکھی جائے اور جب مجتہد کے لیے حق ثابت ہو جائے اور صحیح دلیل مل جائے تو اسے اپنے سابقہ اجتہاد اور موقف کو ترک کر دینا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 325