عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ ایک سخت اور زور آور آدمی تھے، قیدیوں کو مکہ سے مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو بلایا کہ اسے سواری پر ساتھ لیتا جاؤں، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، وہ (گھر سے باہر) نکلی، دیوار کی پرچھائیوں میں میرے وجود کو (یعنی مجھے) دیکھا، بولی کون ہے؟ مرثد! خوش آمدید اپنوں میں آ گئے، مرثد! آج رات چلو ہمارے ڈیرے پر ہمارے پاس رات کو سوؤ، میں نے کہا: عناق! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے، اس نے کہا: خیمہ والو! یہ دلدل ہے ۱؎ یہ وہ (پرندہ) ہے جو تمہارے قیدیوں کو مکہ سے مدینہ اٹھا لے جائے گا (یہ سن کر) میں خندمہ (پہاڑ) کی طرف بڑھا (مجھے پکڑنے کے لیے) میری طلب و تلاش میں آٹھ آدمی نکلے اور میرے سر پر آ کھڑے ہوئے، انہوں نے وہاں پیشاب کیا جس کے چھینٹے مجھ پر پڑے (اتنے قریب ہونے کے باوجود وہ مجھے دیکھ نہ سکے کیونکہ) میرے حق میں اللہ نے انہیں اندھا بنا دیا۔ میں (وہاں سے بچ کر) اپنے (قیدی) ساتھی کے پاس آیا اور اسے سواری پر چڑھا کر چل پڑا۔ پھر جب میں اراک پہنچا تو میں نے اس کی بیڑی کھول دی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آپ سے کہا: اللہ کے رسول! میں عناق سے شادی کر لوں؟ تو آپ خاموش رہے پھر آیت: «الزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك»”زنا کار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے اور نکاح نہیں کرتی“۔ (النور: ۳) نازل ہوئی، پھر (اس کے نزول کے بعد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، مذکورہ آیت پڑھی پھر فرمایا: ”اس سے شادی نہ کرو“۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3230]
وضاحت: ۱؎: دلدل سے تشبیہ اس لیے دی گئی کیونکہ یہ اکثر رات میں ظاہر ہوتا ہے، اور حتیٰ المقدور سر اپنے جسم میں چھپائے رکھتا ہے۔ ۲؎: زانی عورت سے نکاح اس وقت درست ہے جب وہ عمل زنا سے تائب ہو چکی ہو اور عدت بھی پوری ہو چکی ہو اور اگر وہ زنا سے حاملہ ہو چکی ہے تو اس کی مدت عدت وضع حمل ہے۔
مرثد بن أبي مرثد الغنوي وكان رجلا شديدا وكان يحمل الأسارى من مكة إلى المدينة قال فدعوت رجلا لأحمله وكان بمكة بغي يقال لها عناق وكانت صديقته خرجت فرأت سوادي في ظل الحائط فقالت من هذا مرثد مرحبا وأهلا يا مرثد انطلق الليلة فبت عندنا في الرحل قلت يا عناق إن ر
مرثد بن أبي مرثد الغنوي كان يحمل الأسارى بمكة وكان بمكة بغي يقال لها عناق وكانت صديقته قال جئت إلى النبي فقلت يا رسول الله أنكح عناق قال فسكت عني فنزلت والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك فدعاني فقرأها علي وقال لا تنكحها
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3230
اردو حاشہ: (1)”قوی اور بہادر“ اپنے دور جاہلیت میں یہ چور اور ڈاکو تھے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی عادت کے پیش نظر انہیں مسلمان قیدی اٹھا لانے پر مقرر فرما دیا۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْه وَأَرْضَاہُ۔ انہوں نے یہ خدمت لوجہ اللہ انجام دی۔ (2)”خارپشت“ اردو میں اسے سیہ کہتے ہیں جو اپنے جسم کے کانٹوں سے اپنا دفاع کرتی ہے۔ تشبیہ رات کے وقت آنے میں ہوگی۔ (3)”نکاح کرلوں“ تاکہ پردہ بھی رہے اور قیدی بھی آزاد ہوتے ہیں۔ وہ شور بھی نہیں مچائے گی۔ (4) معلوم ہوا مومن شخص مشرک زانیہ سے نکاح نہیں کرسکتا، البتہ اگر وہ مسلمان ہوجائے اور زنا سے توبہ کرلے تو اس سے نکاح جائز ہے۔ مسلمان بدکار عورت اگر زنا پر مصر ہوتو اس سے بھی مومن صالح کو نکاح کرنا جائز نہیں۔ توبہ کی صورت میں کوئی حرج نہیں۔ ”زانیہ“ اسی وقت تک کہا جائے گا جب تک وہ زنا پر قائم رہے۔ چھوڑ دے اور توبہ کرلے تو وہ زانیہ نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3230
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2051
´آیت کریمہ «الزاني لا ينكح إلا زانية» کی تفسیر۔` عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ مرثد بن ابی مرثد غنوی رضی اللہ عنہ قیدیوں کو مکہ سے اٹھا لایا کرتے تھے، مکہ میں عناق نامی ایک بدکار عورت تھی جو ان کی آشنا تھی، مرثد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں عناق سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے تو آیت کریمہ «والزانية لا ينكحها إلا زان أو مشرك» نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور اسے پڑھ کر سنایا اور فرمایا: ”تم اس سے شادی نہ کرنا۔“[سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2051]
فوائد ومسائل: مکمل آیت کریمہ یوں ہے۔ (الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ)(النور۔ 3) بدکار مرد کسی بدکارعورت سے ہی نکاح کرتا ہے۔ یا کسی مشرکہ سے۔ اور بدکار عورت سے کوئی بدکار مرد ہی نکاح کرتا ہے۔ یا کوئی مشرک۔ اور یہ مومنین پر حرام کیا گیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں راحج یہی ہے۔ کے کسی عفیف مرد کو بدکار عورت سے اور عفیفہ عورت کو بدکار مرد سے نکاح کرنا حرام ہے۔ جیسے کہ اسی صورت نور میں ہے۔ (وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ)(النور۔ 26) پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے ہیں۔ اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کےلئے اور یہ حدیث بھی اسی مفہوم کی تایئد کرتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2051
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3177
´سورۃ النور سے بعض آیات کی تفسیر۔` عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ مرثد بن مرثد نامی صحابی وہ ایسے (جی دار و بہادر) شخص تھے جو (مسلمان) قیدیوں کو مکہ سے نکال کر مدینہ لے آیا کرتے تھے، اور مکہ میں عناق نامی ایک زانیہ، بدکار عورت تھی، وہ عورت اس صحابی کی (ان کے اسلام لانے سے پہلے کی) دوست تھی، انہوں نے مکہ کے قیدیوں میں سے ایک قیدی شخص سے وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ اسے قید سے نکال کر لے جائیں گے، کہتے ہیں کہ میں (اسے قید سے نکال کر مدینہ لے جانے کے لیے) آ گیا، میں ایک چاندنی رات میں مکہ کی دیواروں میں سے ایک دیوار کے سایہ میں جا کر کھڑا ہوا ہی تھا کہ عناق آ گئی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3177]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: زانی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے اور زانیہ سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے، مسلمانوں پر یہ نکاح حرام ہے۔ (النور: 3)۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3177