علقمہ کہتے ہیں کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا اور وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تھے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوجوانوں (کی ایک ٹولی) کے پاس پہنچے اور (ان سے) کہا: ”جو تم میں مالدار ہو ۱؎ تو اسے چاہیئے کہ وہ شادی کر لے کیونکہ اس سے نگاہ نیچی رکھنے میں زیادہ مدد ملتی ہے ۲؎، اور نکاح کر لینے سے شرمگاہ کی زیادہ حفاظت ہوتی ہے ۳؎، اور جو مالدار نہ ہو بیوی کے کھانے پینے کا خرچہ نہ اٹھا سکتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ اس کے لیے روزہ شہوت کا توڑ ہے ۴؎، (اس حدیث میں «فتیۃ» کا لفظ آیا ہے، اس کے متعلق) ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس کا مفہوم جیسا میں سمجھنا چاہتا تھا سمجھ نہ سکا۔ [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3208]
وضاحت: ۱؎: یعنی مہر اور نان و نفقہ دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ ۲؎: یعنی پرائی عورت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے کی حاجت نہیں رہتی۔ ۳؎: زنا و بدکاری میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ ۴؎: اس سے شہوانیت دبتی اور کمزور ہو جاتی ہے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3208
اردو حاشہ: (1) وسعت سے مراد مہر اور نکاح کے دیگر اخراجات ہیں۔ اسی طرح بیوی کے کھانے پینے اور لباس کے اخراجات۔ (2)”ضرور نکاح کرے“ ظاہر الفاظ وجوب پردلالت کرتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں۔ مگر جمہور اہل علم سے استحباب پر محمول کرتے ہیں۔ اصل یہ ہے کہ نکاح کا وجوب واستحباب مختلف اشخاص کے لحاظ سے مختلف ہوسکتا ہے، مثلاً جو شخص نکاح کی طاقت بھی رکھتا ہو اور اسے گناہ میں پڑنے کا خدشہ بھی ہو تو اس کے لیے نکاح واجب فرض ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2241)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3208