ابوامامہ باہلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور عرض کیا: آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو جہاد کرتا ہے، اور جہاد کی اجرت و مزدوری چاہتا ہے، اور شہرت و ناموری کا خواہشمند ہے، اسے کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے کچھ نہیں ہے“۱؎۔ اس نے اپنی بات تین مرتبہ دہرائی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے یہی فرماتے رہے کہ اس کے لیے کچھ نہیں ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اسی کے لیے ہو، اور اس سے اللہ کی رضا مقصود و مطلوب ہو“۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3142]
وضاحت: ۱؎: چونکہ اس کی نیت خالص نہیں تھی اس لیے وہ ثواب سے محروم رہے گا۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، عكرمة بن عمار مدلس وعنعن. ولحديثه شاهد ضعيف، جدًا عند الطبراني فى الكبير (8/ 165 ح 7628) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 345
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3142
اردو حاشہ: اللہ تعالیٰ نیک کام میں ”شرکت“ کو بھی پسند نہیں فرماتا۔ شرکت سے مقصود یہ ہے کہ ثواب کی نیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ غنیمت اور شہرت بھی مقصود ہو۔ ظاہر ہے یہ ”شرک“ کی طرح ہے۔ شرک میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت تو ہوتی ہی ہے مگر غیر اللہ کی بھی عبادت ہوتی ہے۔ اگر شرک قبول نہیں تو یہ شرکت کیسے قبول ہوگی؟ اللہ تعالیٰ صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہے جس سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مقصود ہو۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3142